الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سن رشد سن رشد پہنچ کر ان کے باپ خطاب نے ان کو جو خدمت سپرد کی وہ اونٹوں کو چرانا تھا۔ یہ شغل اگرچہ عرب میں معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ قومی شعار تھا لیکن خطاب نہایت بے رحمی کے ساتھ ان سے سلوک کرتے۔ تمام دن اونٹ چرانے کا کام لیتے اور جب کبھی تھک کر دم لینا چاہتے تو سزا دیتے۔ جس میدان میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ مصیبت انگیز خدمات انجام دینی پڑتی تھی۔ اس کا نام ضجنان تھا۔ جو مکہ معظمہ کے قریب قدید سے 10 میل کے فاصلہ پر ہے۔ خلافت کے زمانے میں ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ادھر سے گزر ہوا تو ان نہایت عبرت ہوئی، آبدیدہ ہو کر فرمایا کہ اللہ اکبر ایک وہ زمانہ تھا کہ میں نمدہ کا کرتہ پہنے ہوئے اونٹ چرایا کرتا تھا اور تھک کر بیٹھ جاتا تو باپ کے ہاتھ سے مار کھاتا۔ آج یہ دن ہے کہ خدا کے سوا میرے اوپر کوئی حاکم نہیں۔ (طبقات ابن سعد)۔ شباب کا آغاز ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان شریفانہ مشغلوں میں مشغول ہوئے جو شرفائے عرب میں عموماً معمول تھے ، عرب میں اس وقت جن چیزوں کی تعلیم دی جاتی تھی اور جو لازمہً شرافت خیال کی جاتی تھیں، نسب دانی، سپہ گری، پہلوانی اور مقرری تھی، نسب دانی کا فن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان میں موروثی چلا آتا تھا، جاحظ نے کتاب البیان والبتیین میں بہ صریح لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے باپ اور دادا نفیل تینوں بڑے نساب تھے (طبقات ابن سعد، مطبوعہ مصر ص 117-122)، غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان میں جیسا کہ ہم ابھی لکھ آئے ہیں سفارت اور منافرۃ یہ دونوں منصب موروثی چلے آتے تھے اور ان کے انجام دینے کے لیے انساب کا جاننا سب سے مقدم امر تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انساب کا فن اپنے باپ سے سیکھا۔ جاحظ نے تصریح کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب انساب کے متعلق کچھ بیان کرتے تھے تو ہمیشہ اپنے باپ خطاب کا حوالہ دیتے تھے۔ پہلوانی اور کشتی کے فن میں بھی کمال حاصل تھا، یہاں تک کہ عکاظ کے دنگل میں معرکے کی کشتیاں لڑتے تھے ، عکاظ جبل عرفات کے پاس ایک مقام تھا جہاں سال کے سال اس غرض سے میلہ لگتا تھا کہ عرب کے تمام اہل فن جمع ہو کر اپنے کمالات کے جوہر دکھاتے تھے اس لیے وہی لوگ یہاں پیش ہو سکتے تھے جو کسی فن میں کمال رکھتے تھے۔ نابغہ، زبیانی، حسان بن ثابت، قیس بن ساعدہ، خنساء جن کو شاعری اور ملکۂ تقریر میں تمام عرب مانتا تھا، اسی تعلیم گاہ کے تعلیم یافتہ تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت علامہ بلاذری نے کتاب الاشراف (انساب والاشرف یروشلم میں شائع ہو گئی ہے ) میں ب سند روایت نقل کی ہے کہ عکاظ کے دنگل میں کشتی لڑا کرتے تھے۔ اس سے قیاس ہو سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس فن میں پورا کمال حاصل کیا تھا۔