الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فتوحات کی وسعت کی وجہ سے نئے نئے مسئلوں کا پیدا ہونا چونکہ ان کے زمانے میں فتوحات نہایت تیزی سے بڑھتی جاتی تھیں اور تمدن روز بروز ترقی کرتا جاتا تھا۔ اس لئے نہایت کثرت سے معاملات کی نئی نئی شکلیں پیش آتی جاتی تھیں۔ اگرچہ ہر جگہ قاضی اور مفتی مقرر تھے اور یہ لوگ اکثر اکابر صحابہ میں سے تھے تاہم بہت سے مسائل میں وہ لوگ عاجز آتے اور بارگاہ خلافت کی طرف رجوع کرنا پڑتا تھا۔ اس بناء پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بہت سے پیچیدہ اور غیر منصوص مسائل پر غور و فکر کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ ان کے فتوے جو نہایت کثرت سے تمام کتابوں میں منقول ہیں زیادہ تر انہی مسائل کے متعلق ہیں جو ممالک مختلفہ سے ان کے پاس جواب کے ل ئے آئے۔ چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ میں فتووں کے ساتھ فتویٰ پوچھنے والوں کے نام بھی موجود ہیں۔ لوگوں کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے استفسار کرنا مثلاً عبد اللہ بن مسعود، عمار بن یاسر، ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن جرح، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ وغیرہ۔ صحابہ کے مشورہ سے مسائل طے کرنا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرچہ خوب بہت بڑے فقیہ تھے۔ ان کی رائے بھی فتویٰ کے لئے کافی ہو سکتی تھی۔ تاہم احتیاط کے لئے وہ اکثر مسائل کو عموماً صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی مجلس میں پیش کرتے تھے اور ان پر نہایت آزادی اور نکتہ سنجی کے ساتھ بحثیں ہوتی تھیں۔ علامہ بلاذری نے کتاب الاشراف میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی ایسے مسئلہ کو جو ان سے پہلے طے نہیں ہوا تھا، بغیر صحابہ کے مشورہ کے فیصلہ نہیں کیا۔ شاہ ولی اللہ صاحب حجتہ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں۔ کان من سیرۃ عمر انہ کان یشاور الصحابۃ و یناظر ھم حتی تنکشف الغمۃ و یاتیہ الثلج فصار غالب قضایاہ و فتاواہ متبعۃً مشارق الارض و مغاربھا۔ "حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عادت تھی کہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مشورہ اور مناظرہ کرتے تھے یہاں تک کہ پردہ اٹھ جاتا تھا اور یقین آ جاتا تھا۔ اسی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فتووں کی تمام مشرق و مغرب میں پیروی کی گئی ہے۔ "