الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
عرب میں شاہان یمن وغیرہ کے ہاں فوج کا کوئی منظم بندوبست نہیں تھا۔ اسلام کے آغاز تک اس کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں صرف اس قدر ہوا کہ خلافت کے پہلے سال غنیمت سے جس قدر بچا وہ سب لوگوں کو دس دس روپے کے حساب سے تقسیم کر دیا گیا۔ دوسرے سال آمدنی زیادہ ہوئی تو یہ تعداد دس سے بیس تک پہنچ گئی۔ لیکن نہ فوج کی کچھ تنخواہ مقرر ہوئی، نہ اہل فوج کا کوئی رجسٹر بنا، نہ کوئی محکمہ جنگ قائم ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اوائل خلافت تک بھی یہی حال رہا۔ لیکن 15 ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس صیغے کو اس قدر منظم اور باقاعدہ کر دیا کہ اس وقت کے لحاظ سے تعجب ہوتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فوجی نظام حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے توجہ کرنے کے مختلف اسباب بیان کئے گئے ہیں۔ عام روایت میں یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بحرین کے حاکم مقرر کئے گئے تھے۔ پانچ لاکھ درہم لے کر مدینہ ائے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی اطلاع دی۔ پانچ لاکھ کی رقم اس وقت اس قدر عجوبہ چیز تھی کی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ خیر ہے ! کہتے کیا ہو؟ انہوں نے پھر پانچ لاکھ کہا۔ حضرت عرم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تم کو گنتی بھی آتی ہے ؟ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ہاں، یہ کہہ کر پانچ دفعہ لاکھ لاکھ کہا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یقین آیا تو مجلس شوریٰ منعقد کی اور رائے پوچھی کہ اس قدر زر کثیر کیونکر صرف کیا جائے ؟ حضرت علی، حضرت عثمان اور دیگر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے مختلف تجویزیں پیش کیں۔ ولید بن ہشام نے کہا کہ میں نے شام کے والیان ملک کو دیکھا ہے کہ ان کے ہاں فوج کا دفتر اور رجسٹر مرتب رہتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ رائے پسند آئی اور فوج کی اسم نویسی اور ترتیب دفتر کا خیال پیدا ہوا۔ (مقریزی صفحہ 92 اور فتوح البلدان صفحہ 449)۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ رائے دہندہ نے سلاطین عجم کا حوالہ دیا اور یہی روایت قرین قیاس ہے کیونکہ جب دفتر مرتب ہوا تو اس کا نام دیوان رکھا گیا۔ اور یہ فارسی لفظ ہے دبستان، دبیر، دفتر، دیوان سب ایک مادہ کے لفظ ہیں جن کا مشترک مادہ " دب" ایک پہلوی لفظ ہے جس کے معنی نگاہ رکھنے کے ہیں۔ تمام ملک کا فوج بنانا بہرحال 15 ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوج کا ایک مستقل محکمہ قائم کرنا چاہا۔ اس باب میں ان کی سب سے زیادہ قابل لحاظ جو تجویز تھی وہ تمام ملک کا فوج بنانا تھا، انہوں نے اس مسئلے کو کہ ہر مسلمان فوجِ اسلام کا ایک سپاہی ہے۔ باقاعدہ طور سے عمل میں لانا چاہا۔ لیکن چونکہ ابتداء میں ایسی تعلیم نہ تھی۔ اول قریش اور انصار سے شروع کیا۔ مدینہ منورہ میں اس وقت تین شخص بہت بڑے نساب اور حساب کتاب کے فن میں استاد تھے۔ مخرمہ بن نوفل، جبیر بن مطعم، عقیل