الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تک بحثیں ہوتی رہیں۔ آخر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آیت مذکورہ بالا سے استدلال کیا اور آیت کے یہ الفاظ الذین جاء و امن بعد ھم پڑھ کر فرمایا کہ : فکانت ھذہ عامۃ لمن جاٗ من بعدھم فقد صار ھذا الفئی بین ھؤلاء جمیعاً فکیف نقسمہ لھؤلاء و ندع من یخلف بعدھم۔ (کتاب الخراج صفحہ ۱۵۔ اس معرکہ کا پورا حال کتاب الخراج کے صفحہ ۱۴-۱۵ میں مذکرہ ہے )۔ "تو یہ تمام آئندہ آنے والوں کے لئے ہے اور اس بناء پر یہ تمام لوگوں کا حق ٹھہرے پھر یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ میں موجودہ لوگوں کو تقسیم کر دوں۔ اور ان لوگوں کو محروم کر دوں جو آئندہ پیدا ہوں گے۔ " امام شافعی رحمۃ اللہ اور ان کے ہم خیال کا بڑا استدلال یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر کی زمین کو مجاہدین پر تقسیم کر دیا تھا۔ لیکن وہ یہ نہیں خیال کرتے کہ خیبر کے بعد اور مقامات بھی تو فتح ہوئے ، یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے انتقال سے پہلے تمام عرب پر قبضہ ہو چکا تھا۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کہیں چپہ بھر بھی زمین تقسیم کی؟ فدک کا مسئلہ اسی سلسلے میں باغ فدک کا معاملہ بھی ہے جو مدت تک معرکۃ الآراء رہا ہے۔ ایک فرقہ کا خیال ہے کہ باغ خالص آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی جائیداد تھی۔ کیونکہ اس پر چڑھائی نہیں ہوئی تھی، بلکہ وہاں کے لوگوں نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سپرد کر دیا تھا اور اس وجہ سے وہ اس آیت کے تحت داخل ہے۔ وما افآء اللہ علی رسولہ منھم فما او جفتم علیہ من خیل ولا رکاب ولکن اللہ یسلط رسلہ، علی من یشاء واللہ علی کل شئی قدیر۔ یعنی " جو کچھ خدا نے اپنے پیغمبر کو ان لوگوں سے دلوایا تو تم لوگ اس پر اونٹ یا گھوڑے دوڑا کر نہیں گئے تھے۔ لیکن خدا اپنے پیغمبر کو جس پر چاہتا ہے مسلط کر دیتا ہے اور خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ "