الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ان کا اس قدر احترام کرتے تھے کہ جب امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے ساتھ ایک موقعہ پر اختلاف کیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ماتحتی سے الگ کر دیا۔ (استیعاب قاضی ابن عبد البر)۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کے احکام عدالت کوفہ کے قاضی قاضی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ جن کا فضل و کمال محتاج بیان نہیں۔ فقہ حنفی کے مورث اول ہیں۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد 19 ہجری میں قاضی شریح مقرر ہوئے۔ وہ اگرچہ صحابہ میں سے نہ تھے۔ لیکن اس قدر ذہین اور معاملہ فہم تھے کہ عرب میں ان کا جواب نہ تھا۔ چنانچہ ان کا نام آج تک مثال کے طور پر لیا جاتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو اقصی العرب کہا کرتے تھے۔ ان بزرگوں کے سوا جمیل بن معمر الجمحی، ابو مریم الحنفی، سلمان ربیعہ الباہلی، عبد الرحمٰن بن ربیعہ، ابو قرۃ الکندی، عمران بن الحصین جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کے قضاۃ ہیں ان کی عظمت و جلالت شان رجال کی کتابوں سے معلوم ہو سکتی ہے۔ قضاۃ کا امتحان کے بعد مقرر ہونا قاضی، اگرچہ حاکم صوبہ یا حکم ضلع کا ماتحت ہوتا تھا۔ اور لوگوں کو قضاۃ کے تقرر کا پورا اختیار حاصل تھا۔ تاہم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ زیادہ احتیاط کے لحاظ سے اکثر خود لوگوں کو انتخاب کر کے بھیجتے تھے۔ انتخاب کے لیے اگرچہ خود امیدواروں کی شہرت کافی تھی، لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس پر اکتفا نہیں کرتے تھے ، بلکہ اکثر امتحان اور ذاتی تجربہ کے بعد لوگوں کو انتخاب کرتے تھے۔ قاضی شریح کی تقرری کا یہ واقعہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص سے پسند کی شرط پر ایک گھوڑا خریدا اور امتحان کے لیے ایک سوار کو دیا۔ گھوڑا سواری میں چوٹ کھا کر داغی ہو گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو واپس کرنا چاہا۔ گھوڑے کے مالک نے انکار کیا۔ اس پر نزاع ہوئی اور شریح ثالث مقرر کئے گئے۔ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ گھوڑے کے مالک سے اجازت لے کر سواری کی گئی تھی تو گھوڑا واپس کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہ حق یہی ہے۔ کوفہ کا قاضی مقرر کر دیا۔ (کتاب الاوائل الباب السابع ذکر القضاۃ)۔ کعب بن سور الازدی کے ساتھ اسی قسم کا واقعہ گزرا۔ ناجائز وسائل آمدنی کے روکنے کے لیے بہت سی بندشیں کیں۔