الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بیت المقدس 16 ہجری (637 عیسوی) ہم اوپر لکھ آئے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب شام پر چڑھائی کی تو ہر صوبہ پر الگ الگ افسر بھیجے۔ چنانچہ فلسطین عمرو بن العاص کے حصے میں آیا۔ عمرو بن العاص نے بعض مقامات حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کے عہد میں فتح کر لئے تھے اور فاروقی عہد تک تو نابلس، لد، عمواس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جریں تمام بڑے بڑے شہروں پر قبضہ ہو چکا تھا۔ جب کوئی عام معرکہ پیش آ جاتا تھا تو وہ فلسطین چھوڑ کر ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا ملتے تھے اور ان کو مدد دیتے تھے۔ لیکن فارغ ہونے کے ساتھ فوراً واپس آ جاتے تھے۔ اور اپنے کام میں مشغول ہو جاتے تھے (فتوح البلدان )۔ یہاں تک کہ آس پاس کے شہروں کو فتح کر کے خاص بیت المقدس کا محاصرہ کیا۔ عیسائی قلعہ میں بند ہو کر لڑتے رہے۔ اس وقت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام کے انتہائی اضلاع قسرین وغیرہ فتح کر چکے تھے۔ چنانچہ ادھر سے فرصت پا کر بیت المقدس کا رخ کیا۔ عیسائیوں نے ہمت ہار کر صلح کی درخواست کی۔ اور مزید اطمینان کے لئے یہ شرط اضافہ کی کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود یہاں آئیں اور معاہدہ صلح ان کے ہاتھوں سے لکھا جائے۔ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خط لکھا کہ بیت المقدس کی فتح آپ کی تشریف آوری پر موقوف ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام معزز صحابہ کو جمع کیا۔ اور مشورت کی۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ عیسائی مرعوب اور شکستہ دل ہو چکے ہیں۔ آپ ان کی درخواست کو رد کر دیں تو ان کو اور بھی ذلت ہو گی اور یہ سمجھ کر کہ مسلمان ان کو بالکل حقیر سمجھتے ہیں، بغیر شرط کے ہتھیار ڈال دیں گے۔ لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے خلاف رائے دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان ہی کی رائے کو پسند کیا اور سفر کی تیاریاں کیں (یہ طبری کی روایت ہے )۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نائب مقرر کر کے خلافت کے کاروبار ان کے سپرد کیے (فتوح البلدان )۔ اور رجب 16 ہجری میں مدینہ سے روانہ ہوئے۔ ناظرین کو انتظار ہو گا کہ فاروق اعظم کا سفر اور سفر بھی وہ جس سے دشمنوں پر اسلامی جلال کا رعب بٹھانا مقصود تھا۔ کس ساز و سامان سے ہوا ہو گا؟ لیکن یہاں نقارہ نوبت، خدم و حشم لاؤ لشکر ایک طرف معمولی ڈیرہ اور خیمہ تک نہ تھا۔ سواری میں گھوڑا تھا اور چند مہاجر و انصار ساتھ تھے۔ تاہم جہاں یہ آواز پہنچتی تھی کہ فاروق اعظم نے مدینہ سے شام کا ارادہ کیا ہے زمین دہل جاتی تھی۔ سرداروں کو اطلاع دی جا چکی تھی کہ جابیہ میں آ کر ان سے ملیں۔ اطلاع کے مطابق یزید بن ابی سفیان اور خالد بن الولید وغیر نے یہیں استقبال کیا۔ شام میں رہ کر ان افسروں میں عرب کی سادگی باقی نہیں رہی تھی۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے یہ لوگ آئے تو اس ہیئت سے آئے کہ بدن پر حریر و دیبا کی چکنی اور پر تکلف قبائیں تھیں۔ اور زرق برق