الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے وقتاً فوقتاً جو ہاتھ آتا تھا اور علیٰ قدر مراتب فوج پر تقسیم ہوتا تھا۔ اس کی کچھ انتہا نہ تھی۔ چنانچہ جلولا میں نو نو ہزار، نہاوند چھ چھ ہزار درہم ایک ایک سوار کے حصے میں آئے تھے۔ صحت اور تندرستی قائم رکھنے کے لئے حسب ذیل قاعدے مقرر تھے۔ اختلاف موسم کے لحاظ سے فوج کی تقسیم جاڑے اور گرمی کے لحاظ سے لڑائی کی جہتیں متعین کر دی تھیں، یعنی جو سرد ملک تھے ان پر گرمیوں میں اور گرم ملکوں پر جاڑوں میں فوجیں بھیجی جاتی تھیں اس تقسیم کا نام شاتیہ اور صافیہ رکھا اور یہی اصطلاح آج تک قائم ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے مؤرخین مغربی مہمات اور فتوحات کو صرف صوائف کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ انتظام حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 17 ہجری میں کیا تھا۔ علامہ طبری لکھتے ہیں۔ و سمی الشبواتی والصوائف و سمی ذلک فی کل کورۃ۔ بہار کے زمانے میں فوجوں کا قیام فسل بہار میں فوجیں ان مقامات پر بھیج دی جاتی تھیں جہاں کی آب و ہوا عمدہ اور سبزہ و مرغزار ہوتا تھا۔ یہ قاعدہ اول اول 17 ہجری میں جاری کیا گیا۔ جبکہ مدائن کی فتح کے بعد وہاں کی خراب آب و ہوا نے فوج کی تندرستی کو نقصان پہنچایا تھا۔ چنانچہ عتبہ بن غزوان کو لکھا کہ ہمیشہ جب بہار کا موسم آئے تو فوجیں شاداب اور سرسبز مقامات میں چلی جائیں۔ (تاریخ طبری صفحہ 2486 میں ہے و کتب عمر الی سعد بن مالک و الی عتبہ بن غزوان یتربھا بالناس فی کل حین ربیع فی اطیب ارلھم)۔ عمرو بن العاص گورنر مصر، موسم بہار کے آنے کے ساتھ ہی فوج کو باہر بھیج دیتے تھے اور حکم دیتے تھے کہ سیر و شکار میں بسر کریں اور گھوڑوں کو چرا کر فربہ بنا کر لائیں۔ آب و ہوا کا لحاظ بارکوں کی تعمیر اور چھاؤنیوں کے بنانے میں ہمیشہ عمدہ آب و ہوا کا لحاظ کیا جاتا تھا اور مکانات کے آگے کھلے ہوئے خوش فضا صحن چھوڑے جاتے تھے۔ فوجوں کے لئے جو شہر آباد کئے گئے مثلاً کوفہ، بصرہ، فسطاط وغیرہ ان میں صحت کے لحاظ سے سڑکیں اور کوچے اور گلیاں نہایت وسیع ہوتی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس میں اس قدر اہتمام تھا کہ مساحت اور وسعت کی تعیین بھی خود لکھ کر بھیجی تھی۔ چنانچہ اس کی تفصیل ان شہروں کے ذکر میں گزر چکی۔