الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پانچویں صدی کے آغاز سے متاخرین کا دور شروع ہوتا ہے۔ جو فن تاریخ کے تنزل کا پہلا قدم ہے۔ متاخرین میں اگرچہ بیشمار مؤرخ گزرے جن میں سے ابن اثیر، سمعانی ذہبی ابو الغداء، نویری اور سیوطی وغیرہ نے نہایت شہرت حاصل کی۔ لیکن افسوس ہے کہ ان لوگوں نے تاریخ کے ساتھ ساتھ من حیث الفن کوئی احسان نہیں کیا۔ قدماء کی خصوصیتیں متاخرین نے قدماء کی جو خصوصیات تھیں، کھو دیں اور خود کوئی نئی بات پیدا نہیں کی۔ مثلاً قدماء کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ ہر تصنیف نئی معلومات پر مشتمل ہوتی تھی۔ متاخرین نے یہ طرز اختیار کیا کہ کوئی قدیم تصنیف سامنے رکھ لی اور بغیر اس کے کہ اس پر کچھ اضافہ کر سکیں تغیر اور اختصار کے ساتھ اس کا قالب بدل دیا۔ تاریخ ابن الاثیر کو علامہ ابن خلکان نے من خیار التواریخ کہا ہے اور حقیقت میں اس کی قبولیت عام نے تصحیفیں ناپید کر دیں۔ زمانہ کا اشتراک ہے ایک بات بھی اس میں طبری سے زیادہ نہیں مل سکتی، اسی طرح ابن الاثیر کے بعد جو لوگ پیدا ہوئے انہوں نے اپنی تصنیف کا مدار صرف ابن الاثیر پر رکھا۔ وھلم جراً اس سے بڑھ کر یہ کہ متاخرین نے قدماء کی کتابوں کا جو اختصار کیا۔ اس طرح کیا کہ جہاں جو بات چھوڑ دی وہی اس تمام واقعہ کی روح تھی۔ چنانچہ ہماری کتاب کے دوسرے حصے میں اس کی بہت مثالیں آئیں گی۔ قدماء میں ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ تمام واقعات کو حدیث کی طرح بسند متصل نقل کرتے تھے ، متاخرین نے یہ التزام بالکل چھوڑ دیا۔ ایک اور خصوصیت قدماء میں یہ تھی کہ وہ اگرچہ کسی عہد کی معاشرت و تمدن پر جدا عنوان نہیں قائم کرتے تھے۔ لیکن ضمناً ان جزئیات کو لکھ جاتے تھے جن سے تمدن و معاشرت کا کچھ کچھ پتہ چلتا تھا۔ متاخرین نے یہ خصوصیت بھی قائم نہ رکھی۔ لیکن اس عام نکتہ چینی میں ابن خلدون کا نام شامل نہیں ہے۔ اس نے فلسفۂ تاریخ کا فن ایجاد کیا۔ اور اس پر نہ صرف متاخرین بلکہ مسلمانوں کی کل قوم ناز کر سکتی ہے۔ اسی طرح اس کا شاگرد علامہ مقریزی بھی نکتہ چینی کی بجائے مدح و ستائش کا مستحق ہے۔ بحر حال الفاروق کی تالیف کے لیے جو سرمایہ کام آ سکتا تھا وہ یہی قدماء کی تصنیفات تھیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاریخ و تذکرے کے فن نے جو آج ترقی کی ہے۔ اس کے لحاظ سے یہ بے بہا خزانے بھی چنداں کارآمد نہیں۔ اس اجمال کی تفصیل سمجھنے کے لئے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ فن تاریخ کی ماہیت اور حقیقت کیا ہے۔