الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
ثقیف، ہمدان بجیلہ، نیم اللات، تغلب، بنو اسد، نحع و کندۃ، ازومزینہ، تمیم و محارب، اسد و عامر، بجالہ، جدیلہ و اخلاط جہینہ، مذحج، ہوازن وغیرہ وغیرہ۔ یہ شہر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں اس عظمت و شان کو پہنچا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کو راس الاسلام کے نام سے موسوم فرماتے تھے۔ اور درحقیقت وہ عرب کی طاقت کا اصلی مرکز بن گیا۔ زمانہ ما بعد میں اس کی آبادی برابر ترقی کرتی گئی۔ لیکن یہ خصوصیت قائم رہی کہ آباد ہونے والے عموماً عرب کی نسل سے ہوتے تھے۔ 64 ہجری میں مردم شماری ہوئی تو 50 ہزار گھر خاص قبیلہ بیعہ، مضر کے اور 24 ہزار قبائل کے تھے اور اہل یمن کے 6 ہزار گھر ان کے علاوہ تھے۔ زمانہ ما بعد کی تغیرات اور ترقیوں نے اگرچہ قدیم آثار کو قائم نہیں رکھا تھا۔ تاہم یہ کچھ کم تعجب کی بات نہیں کہ بعض بعض عمارات کے نشانات زمانہ دراز تک قائم رہے۔ ابن بطوطہ جس نے آٹھویں صدی میں اس مقدس مقام کو دیکھا تھا اپنے سفر نامہ میں لکھتا ہے کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو ایوان حکومت بنایا تھا اس کی بنیاد اب تک قائم ہے۔ اس شہر کی علمی حیثیت یہ ہے کہ فن نحو کی ابتدا یہیں ہوئیں۔ یعنی ابو الا سود وائلی نے اول اول نحو کے قوائد یہیں بیٹھ کر منضبط کئے۔ فقہ حنفی کی بنیاد یہیں پڑی۔ امام ابو حنیفہ صاحب رحمۃ اللہ نے قاضی ابو یوسف رحمۃ اللہ وغیرہ کی شرکت سے فقہ کی جو مجلس قائم کی وہ یہیں قائم کی۔ حدیث اور علوم عربیت کے بڑے بڑے ائمہ فن جو یہاں پیدا ہوئے ان میں ابراہیم نخعی، حماد، امام ابو حنیفہ، شعبی یادگار زمانہ تھے۔ (کوفہ و بصرہ کے حالات طبری، بلاذری اور معجم البلدان نے لئے گئے )۔ فسطاط عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اسکندریہ فتح کر لیا تو یونانی جو کثرت سے وہاں آباد تھے عموماً شہر چھوڑ کر نکل گئے۔ ان مکانات کو خالی دیکھ کر عمرو بن العاص نے ارادہ کیا کہ اس کو مستقر حکومت بنائیں۔ چنانچہ دربار خلافت سے اجازت طلب کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دریا کے حائل ہونے سے بہت ڈرتے تھے۔ بصرہ کوفہ کی آبادی کے وقت افسروں کو لکھا کہ شہر جہاں بسایا جائے وہاں سے مدینہ تک دریا راہ میں نہ آئے۔ چونکہ اسکندریہ کی راہ میں دریائے نیل پڑتا تھا اس لیے اس کو مستقر ریاست بنانا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ پسند نہ کیا۔ عمرو بن العاص اسکندریہ سے چل کر قصر الشمع میں آئے۔ یہاں ان کا وہ خیمہ اب تک اسی حالت سے کھڑا تھا جس کو وہ اسکندریہ کے حملے کے وقت خالی چھوڑ گئے تھے۔ چنانچہ اسی خیمے میں اترے اور وہیں نئی آبادی کی بنیاد ڈالی۔ ہر ہر قبیلے کے لیے الگ الگ احاطے کھینچے اور معاویہ بن خدیج، شریک بن