الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
زمیندار اور تعلقہ دار جو لوگ قدیم سے زمیندار اور تعلقہ دار تھے اور جن کو ایرانی زبان میں مرزبان اور دہقان کہتے تھے ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی حالت اسی طرح قائم رہنے دی اور ان کے جو اختیارات اور حقوق تھے سب بحال رکھے۔ جس خوبی سے بندوبست کیا گیا تھا اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ باوجود اس کے کہ لگان کی شرحیں نوشیروان کی مقرر کردہ شرحوں سے زائد تھیں، تاہم نہایت کثرت سے افتادہ زمینیں آباد ہو گئیں اور دفعۂ زراعت کی پیداوار میں ترقی ہو گئی۔ پیداوار اور آمدنی میں ترقی چنانچہ بندوبست کے دوسرے ہی سال خراج کی مقدار آٹھ کروڑ سے دس کروڑ بیس ہزار درہم تک پہنچ گئی۔ سالہائے ما بعد میں اور بھی اضافہ ہوتا گیا۔ اس پر بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ احتیاط تھی۔ ہر سال مال گزاری کی نسبت رعایا کی اظہار لیا جانا کہ ہر سال جب عراق کا خراج آتا تھا تو دس ثقہ اور معتمد اشخاص کوفہ سے اور اسی قدر بصرہ سے طلب کئے جاتے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو چار دفعہ شرعی قسم دلاتے تھے کہ یہ مال گزاری کسی ذمی یا مسلمان پر ظلم کر کے تو نہیں لی گئی ہے۔ (کتاب الخراج صفحہ 165، اصل عبارت یہ ہے : ان عمر ابن الخطاب کان من یحی العراق کل سنۃ مائۃ الف الف اوقیہ ثم یخرج الیہ عشرۃ من اھل الکوفۃ و عشرۃ من اھل البصرۃ یشھدون اربع شھادات باللہ انہ من طیب مافیہ طلم مسلم و لا معاھد 12)" یہ عجیب بات ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اگرچہ نہایت نرمی سے خراج مقرر کیا تھا لیکن جس قدر مال گزاری ان کے عہد میں وصول ہوئی زمانہ مابعد میں کبھی وصول نہیں ہوئی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جس قدر خراج وصول ہوا زمانہ بعد میں کبھی نہیں ہوا حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ حجاج پر خدا لعنت کرے کمبخت کو نہ دین کی لیاقت تھی نہ دنیا کی۔ عمر بن الخطاب نے عراق کی مال گزاری 10 کروڑ 28 لاکھ درہم وصول کی، زیاد نے 10 کروڑ 15 لاکھ اور حجاج نے باوجود جبر و ظلم