الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بندوبست مال گزاری میں ذمیوں سے رائے لینا اس معاملے میں ایک اور نہایت منصافانہ اصول جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے برتا یہ تھا کہ بندوبست اور اس کے متعلق تمام امور میں ذمی رعایا سے جو پارسی یا عیسائی تھی ہمیشہ رائے طلب کرتے تھے۔ اور ان کی معروضات پر لحاظ فرماتے تھے۔ عراق کا جب بندوبست کرنا چاہا تو پہلے عمال کو لکھا کہ عراق کے دو رئیسوں کو ہمارے پاس بھیجو جن کے مترجم بھی ہوں (کتاب الخراج صفحہ 31)۔ پیمائش کا کام ہو چکا تو پھر دس دس بڑے بڑے زمیندار عراق سے بلوائے اور ان کے اظہار لیے (کتاب الخراج صفحہ 5)۔ اسی طرح مصر کے انتظام کے وقت وہاں کے گورنر کو لکھا کہ مقوقس سے (جو پہلے مصر کا حاکم تھا) خراج کے معاملے میں رائے لو۔ اس پر بھی تسلی نہ ہوئی تو ایک واقف کار قبطی کو مدینے میں طلب کیا اور اس کا اظہار لیا۔ (مقریزی جلد اول صفحہ 74 تا 75)۔ یہ طریقہ جس طرح عدل و انصاف کا نہایت اعلیٰ نمونہ تھا، اسی طرح انتظام کی حیثیت سے بھی مفید تھا۔ ان باتوں کے ساتھ ان اصلاحات کو بھی شامل کرنا چاہیے جن کا بیان ہم بندوبست کے شروع میں کر آئے ہیں۔ ترقی زراعت بندوبست کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زمین کی آبادی اور زراعت کی ترقی کی طرف توجہ کی۔ عام حکم دے دیا کہ تمام ملک میں جہاں جہاں افتادہ زمینیں ہیں جو شخص ان کو آباد کرے گا اس کی ملک ہو جائیں گی۔ لیکن اگر کوئی شخص اس قسم کی زمین کو آباد کرنے کی غرض سے اپنے قبضے میں لائے اور تین برس کے اندر آباد نہ کرے تو زمین اس کے قبضے سے نکل جائے گی۔ اس طریقے سے افتادہ زمینیں نہایت جلد آباد ہو گئیں۔ حملے کے وقت جہاں جہاں کی رعایا گھر چھوڑ کر نکل گئی تھی ان کے لیے اشتہار دے دیا کہ واپس آ جائے اور اپنی زمینوں پر قابض ہو جائے۔ زراعت کی حفاظت اور ترقی کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو خیال تھا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے ان سے آکر شکایت کی کہ شام میں میری کچھ زراعت تھی۔ اپ کی فوج ادھر سے گزری اور اس کو برباد کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی وقت اس کو دس ہزار درہم معاوضے میں دلوائے۔ (کتاب الاخراج صفحہ 6۔ تمام ممالک مفتوحہ میں نہریں جاری کیں اور بند باندھے۔