الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس کے ساتھ خود بڑے ساز و سامان سے فوجی تیاریاں شروع کیں۔ ہر طرف نقیب دوڑائے کہ اضلاع عرب میں جہاں جہاں کوئی رئیس، صاحب تدبیر، شاعر، خطیب، اہل الرائے ہو، فوراً دربارِ خلافت میں آئے۔ چونکہ حج کا زمانہ آ چکا تھا۔ خود مکہ معظمہ کو روانہ ہوئے اور حج سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ ہر طرف سے قبائل عرب کا طوفان امنڈ آیا۔ سعد بن ابی وقاص نے تین ہزار آدمی بھیجے۔ جن میں ایک ایک شخص تیغ و علم کا مالک تھا۔ حضر موت، صدف، مذحج، قیس، غیلان کے بڑے بڑے سردار ہزاروں کی جمعیت لے کر آئے۔ مشہور قبائل میں سے یمن کے ہزار، بنو تمیم و رباب کے چار ہزار، بنو اسد کے تین ہزار آدمی تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج کر کے واپس آئے تو جہاں تک نگاہ جاتی تھی، آدمیوں کا جنگل نظر آتا تھا۔ حکم دیا کہ لشکر نہایت ترتیب سے آراستہ ہو۔ میں خود سپہ سالار بن کر چلوں گا۔ چنانہ ہراول پر طلحہ، میمنہ پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، میسرہ پر عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو مقرر کیا۔ فوج آراستہ ہو چکی تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر خلافت کے کاروبار سپرد کئے اور خود مدینہ سے نکل کر عراق کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس مستعدی سے ایک عام جوش پیدا ہو گیا۔ اور سب نے مرنے پر کمریں باندھ لیں۔ صرار جو مدینہ سے تین میل پر ایک چشمہ ہے وہاں پہنچ کر مقام کیا۔ اور اس سفر کی گویا پہلی منزل تھی۔ چونکہ امیر المومنین کا خود معرکہ جنگ میں جانا بعض مصلحتوں کے لحاظ سے مناسب نہ تھا۔ اس لئے صرار میں فوج کو جمع کر کے تمام لوگوں سے رائے طلب کی۔ عوام نے یک زبان ہو کر کہا کہ امیر المومنین! یہ مہم آپ کے بغیر سر نہ ہو گی۔ لیکن بڑے بڑے صحابہ نے جو معاملہ کا نشیب و فراز سمجھتے تھے اس کے خلاف رائے دی۔ عبد الرحمٰن بن عوف نے کہا کہ لڑائی کے دونوں پہلو ہیں۔ اگر خدانخواستہ شکست ہوئی اور آپ کو کچھ صدمہ پہنچا تو پھر اسلام کا خاتمہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھڑے ہو کر ایک پراثر تقریر کی۔ اور عوام کی طرف خطاب کر کے کہا کہ " میں تمہاری رائے پر عمل کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اکابر صحابہ اس رائے سے متفق نہیں" غرض اس پر اتفاق ہو گیا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود سپہ سالار بن کر نہ جائیں۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ اور کوئی شخص اس بار گراں کے اٹھانے کے قابل نہیں ملتا۔ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام کی مہمات میں مصروف تھے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے درخواست کی گئی تو انہوں نے انکار کیا۔ لوگ اسی حیض میں تھے کہ دفعتہً عبد الرحمٰن بن عوف نے اٹھ کر کہا کہ میں نے پا لیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کون؟ بولے کہ "سعد بن ابی وقاص" رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے مرتبہ کے صحابی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ماموں تھے۔ ان کی بہادری اور شجاعت بھی مسلم تھی۔ لیکن تدبیر جنگ اور سپہ سالاری کے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کی طرف سے اطمینان نہ تھا۔ اس بناء پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی تردد تھا۔ لیکن جب تمام حاضرین نے عبد الرحمٰن بن عوف کی رائے کی تائید کی، چار و ناچار منظور کیا۔ تاہم احتیاط کے لحاظ سے لشکر کی تمام مہمات قبضہ اختیار میں رکھیں۔ چنانچہ ان معرکوں میں اول سے آخر تک فوج کی نقل و حرکت، حملہ کا بند و بست، لشکر کی ترتیب، فوجوں کی تقسیم وغیرہ کے متعلق ہمیشہ احکام بھیجتے رہتے تھے۔ اور ایک کام