الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اہل عرب زط کہتے تھے ، یزدگرد کے لشکر میں شامل تھے۔ سوس کے معرکے کے بعد وہ اسلام کے حلقہ بگوش ہوئے اور فوج میں بھرتی ہو کر بصرہ میں آباد کئے گئے (فتوح البلدان صفحہ 275)۔ یونانی اور رومی بہادر بھی فوج میں شامل تھے چنانچہ فتح مصر میں ان میں سے پانچ سو آدمی شریک جنگ تھے اور جب عمرو بن العاص نے فسطاط آباد کیا تو یہ جداگانہ محلے میں آباد کئے گئے۔ یہودیوں سے بھی یہ سلسلہ خالی نہ تھا، چنانچہ مصر کی فتح میں ان میں سے ایک ہزار آدمی اسلامی فوج میں شریک تھے (مقریزی صفحہ 298 میں ان سب کے حالات کسی قدر تفصیل سے لکھے ہیں)۔ غرض حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صیغۂ جنگ کو جو وسعت دی تھی اس کے لئے کسی قوم اور کسی ملک کی تخصیص نہ تھی۔ یہاں تک کہ مذہب و ملت کی بھی کچھ قید نہ تھی۔ والنٹیر فوج میں تو ہزاروں مجوسی شامل تھے جن کو مسلمانوں کے برابر مشاہرے ملتے تھے۔ فوجی نظام میں بھی مجوسیوں کا پتہ ملتا ہے۔ چنانچہ اس کی تفصیل غیر قوموں کے حقوق کے ذکر میں آئے گی۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ صیغۂ جنگ کی یہ وسعت جس میں تمام قوموں کو داخل کیا گیا تھا، صرف اسلام کی ایک فیاضی تھی۔ ورنہ فتوحات ملکی کے لئے عرب کو اپنی تلوار کے سوا اور کسی کا کبھی ممنون ہونا نہیں پڑا۔ البتہ اس سے بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ جس قوموں سے مقابہ تھا انہی کے ہم قوموں کو ان سے لڑانا فن جنگ کا بڑا اصول تھا۔ کہ خرگوش ہر مز زرا بے شگفت سگ آں ولایت تواند گرفت جیسا کہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں کہ ابتدائے انتظام میں فوجی صیغہ صاف صاف جداگانہ حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ یعنی جو لوگ اور حیثیت سے تنخواہیں پاتے تھے ، ان کے نام بھی فوجی رجسٹر میں درج تھے اور اس وقت یہی مصلحت تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اب یہ پردہ بھی اٹھا دینا چاہا۔ شروع شروع میں تنخواہ کی کمی بیشی میں قرآن خوانی کے وصف کا بھی لحاظ ہوتا تھا لیکن چونکہ اس کو فوجی امور سے کچھ تعلق نہ تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو صیغۂ تعلیم کر کے اس دفتر سے الگ کر دیا۔ چنانچہ سعد بن ابی وقاص کو یہ الفاظ لکھ بھیجے " لا لفظ علی القراں احداً۔ تنخواہوں میں ترقی