الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نامۂ فتح لکھا اور پوچھا کہ مفتوحین کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟ (واقعہ محل کی تفصیل فتوح شام ازدی سے لی گئی ہے۔ طبری وغیرہ نے نہایت اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے اور واقعہ کی کیفیت میں بھی اختلاف ہے )۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب میں لکھا کہ " رعایاؤی قرار دی جائے اور زمین بدستور زمینداروں کے قبضے میں چھوڑ دی جائے۔ " اس معرکے کے بعد ضلع اردن کے تمام شہر اور مقامات نہایت آسانی سے فتح ہو گئے۔ اور ہر جگہ شرائط صلح میں یہ لکھ دیا گیا کہ مفتوحین کی جان، مال، زمین، مکانات، گرجے ، عبادت گاہیں سب محفوظ رہیں گے۔ صرف مسجدوں کی تعمیر کے لئے کس قدر زمین لی جائے گی۔ حمص 14 ہجری (635 عیسوی) شام کے اضلاع میں سے یہ ایک بڑا ضلع اور قدیم شہر ہے۔ انگریزی میں اکوامیشا کہتے ہیں۔ قدیم زمانے میں اس کی شہرت زیادہ اس وجہ سے ہوئی کہ یہاں آفتاب کے نام پر ایک بڑا ہیکل تھا جس کے تیرتھ کے لئے دور دور سے لوگ آتے تھے اور اس کی پجاری ہونا بڑے فخر کی بات سمجھی جاتی تھی۔ دمشق اور اردن کے بعد تین بڑے بڑے شہر رہ گئے تھے جن کا مفتوح ہونا شام کا مفتوح ہونا تھا۔ بیت المقدس، حمص اور انطاکیہ، جہاں خود ہرقل مقیم تھا۔ حمص ان دونوں کی بہ نسبت زیادہ قریب اور جمعیت و سامان میں دونوں سے کم تھا۔ اس لئے لشکر اسلام نے اول اسی کا ارادہ کیا۔ راہ میں بعلبک پڑتا تھا وہ خفیف سی لڑائی کے بعد فتح ہو گیا۔ حمص کے قریب رومیوں نے خود بڑھ کر مقابلہ کرنا چاہا۔ چنانچہ فوج کثیر حمص سے نکل کر جوسیہ میں مسلمانوں کے مقابل ہوئی لیکن خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پہلے ہی حملے میں ان کے پاؤں اکھڑ گئے۔ خالد نے مبرہ بن مسروق کو تھوڑی سی فوج دے کر حمص کو روانہ کیا۔ راہ میں رومیوں کی ٹوٹی پھوٹی فوجوں سے جو ادھر ادھر پھیلی ہوئی تھیں مٹھ بھیڑ ہوئی اور مسلمان کامیاب رہے۔ اس معرکے میں شرجیل حمیری نے اکیلے سات سو سواروں کو قتل کیا اور فوج سے الگ ہو کر جریدہ حمص کی طرف بڑھے۔ شہر کے قریب رومیوں کے ایک رسالہ نے ان کو تنہا دیکھ کر حملہ کیا۔ انہوں نے بڑی ثابت قدمی سے جنگ کی۔ یہاں تک کہ جب دس گیارہ شخص ان کے ہاتھ سے مارے گئے تو رومی بھاگ گئے اور ایک گرجا میں جو دیر مسحل کے نام سے مشہور تھا جا کر پناہ لی۔ ساتھ ہی یہ بھی پہنچے۔ گرجا میں ایک جماعت کثیر موجود تھی۔ یہ چاروں طرف سے گھر گئے اور ڈھیلوں اور پتھروں کی بوچھاڑ میں زخمی ہو کر شہادت حاصل کی۔ مبرۃ کے بعد خالد نے اور ابو عبیدہ نے بھی حمص کا رخ کیا۔ اور محاصرہ کے سامان پھیلا دیئے۔ چونکہ نہایت شدت کی سردی تھی اور رومیوں کو یقین تھا کہ مسلمان کھلے میدان میں دیر تک نہ لڑ