الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جلولاء 16 ہجری (637) عیسوی (جلولا بغداد کے سواد میں ایک شہر ہے جا بسبب چھوٹے ہونے کے نقشے میں مندرج نہیں ہے۔ بغداد سے خراسان جاتے وقت راہ میں پڑتا ہے ) یہ معرکہ فتوحات عراق کا خاتمہ تھا۔ مدائن کی فتح کے بعد ایرانیوں نے جلولاء میں جنگ کی تیاریاں شروع کیں۔ اور ایک بڑی فوج جمع کر لی۔ خرزاد نے جو رستم کا بھائی اور سر لشکر تھا۔ نہایت تدبیر سے کام لیا۔ شہر کے گرد خندق تیار کرائی اور راستوں اور گزرگاہوں پر گوکھرو (ایک کانٹا جو سہ گوشہ ہوتا ہے (پنجابی) بھکڑا، لوہے کے بنے ہوئے کانٹے جو دشمن کی راہ میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔ فیروز اللغات (انوار الحق قاسمی) بچھا دیئے۔ سعد کو یہ خبر پہنچی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خط لکھا۔ وہاں سے جواب آیا کہ ہاشم بن عتبہ بارہ ہزار فوج لے کر اس مہم پر جائیں اور مقدمۃ الجیش پر قعقاع، میمنہ پر مشعر بن مالک، میسرہ پر عمرو بن مالک، ساقہ پر عمرو بن مرہ مقرر ہوں۔ ہاشم مدائن سے روانہ ہو کر چوتھے روز جلولاء پہنچے اور شہر کا محاصرہ کیا۔ مہینوں محاصرہ رہا۔ ایرانی وقتاً فوقتاً قلعہ سے نکل کر حملہ آور ہوتے تھے ، اس طرح اسی (80) معرکے ہوئے لیکن ایرانیوں نے ہمیشہ شکست کھائی۔ تاہم چونکہ شہر میں ہر طرح کا ذخیرہ تھا اور لاکھوں کی جمعیت تھی، بیدل نہیں ہوتے تھے اور ایک دن بڑے زور شور سے نکلے۔ مسلمانوں نے بھی جم کر مقابلہ کیا۔ اتفاق یہ کہ دفعتاً اس زور کی آندھی چلی کہ زمین آسمان میں اندھیرا ہو گیا۔ ایرانی مجبور ہو کر پیچھے ہٹے لیکن گرد و غبار کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ ہزاروں آدمی خندق میں گر کر مر گئے۔ ایرانیوں نے یہ دیکھ کر جا بجا خندق کو پاٹ کر راستہ بنایا۔ مسلمانوں کو خبر ہوئی تو انہوں نے اس موقعہ کو غنیمت سمجھا اور حملہ کی تیاریاں کیں۔ ایرانیوں کو بھی دم دم کی خبریں پہنچتی تھیں۔ اسی وقت مسلمانوں کی آمد کے رخ گوکھرو بچھوا دیئے اور فوج کو ساز و سامان سے درست کر کے قلعہ کے دروازے پر جما دیا۔ دونوں حریف اس طرح دل توڑ کر لڑے کہ لیلتہ الہریر کے سوا کبھی نہیں لڑے تھے۔ اول تیروں کا مینہ برسا، ترکش خالی ہو گئے تو بہادروں نے نیزے سنبھال لئے۔ یہاں تک کہ نیزے بھی ٹوٹ ٹوٹ کر ڈھیر ہو گئے۔ تو تیغ و خنجر کا معرکہ شروع ہوا۔ قعقاع نہایت دلیری سے لڑ رہے تھے اور آگے بڑھتے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ قلعہ کی پھاٹک تک پہنچ گئے۔ لیکن سپہ سالار فوج یعنی ہاشم پیچھے رہ گئے تھے۔ اور فوج کا بڑا حصہ انہیں کی رکاب میں تھا۔ قعقاع نے نقیبوں سے کہلوا دیا کہ سپہ سالار قلعہ کے دروازے تک پہنچ گیا۔ فوج نے قعقاع کو ہاشم سمجھا اور دفعتہً ٹوٹ کر گری۔ ایرانی گھبرا کر ادھر ادھر بھاگے لیکن جس طرف جاتے تھے گوکھرو بچھے ہوئے تھے۔ مسلمانوں نے بے دریغ قتل کرنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ مورخ طبری کی روایت کے موافق لاکھ آدمی جان سے مارے گئے اور تین کروڑ غنیمت ہاتھ آئی۔