الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اصول مساوات اسی اصول مساوات کی بنا پر وہ کسی شخص کے لئے کسی قسم کا امتیاز پسند نہیں کرتے تھے۔ عمرو بن العاص نے مصر کی جامع مسجد میں منبر بنایا تو لکھ بھیجا کہ کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ اور مسلمان نیچے بیٹھے ہوں اور تم اوپر بیٹھو۔ " عمال کو ہمیشہ تاکیدی احکام بھیجتے رہتے تھے کہ کسی طرح کا امتیاز اور نمود اختیار نہ کریں۔ ایک دفعہ ابی بن کعب سے کچھ نزاع ہوئی۔ زید بن ثابت کے ہاں مقدمہ پیش ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے پاس گئے تو انہوں نے تعظیم کے لئے جگہ خالی کر دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یہ پہلی ناانصافی ہے جو تم نے اس مقدمہ میں کی۔ " یہ کہہ کر اپنے فریق کے برابر بیٹھ گئے۔ یہی بھید تھا کہ طرز معاشرت نہایت سادہ اور غریبانہ رکھی تھی۔ سفر و حضر میں جلوت و خلوت میں مکان اور بازار میں کوئی شخص ان کو کسی علامت شے پہچان نہیں سکتا تھا کہ یہ خلیفہ وقت ہیں۔ قیصر و کسریٰ کے ایلچی مسجد نبوی میں آ کر ڈھونڈتے رہے کہ شاہنشاہ اسلام کہاں ہیں۔ حالانکہ شاہنشاہ وہیں پیوند لگے کپڑے پہنے کسی ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا تھا۔ ان کے عمال ان کو اسی برابر کے القاب سے خط لکھتے جس طرح وہ عمال کو لکھا کرتے تھے۔ اس اصول انصاف سے اگرچہ کچھ خاص آدمی جن کے ادعائے شان کو صدمہ پہنچتا تھا۔ دل میں مکدر ہوتے تھے۔ لیکن چونکہ یہ عرب کا اصلی مذاق تھا۔ اس لئے عام ملک پر اس کا نہایت عمدہ اثر ہوا اور تھوڑے ہی دنوں میں تمام عرب گرویدہ ہو گیا۔ خواص میں بھی جو حق شناس تھے وہ روز بروز معترف ہوتے گئے اور جو بالکل خود پرست تھے وہ بھی میلان عام کے مقابلے میں اپنی خود رائی کے اظہار کی جرات نہ کر سکے۔ اس اصول کے عمل میں لانے سے بہت بڑا فائدہ یہ ہوا کہ قبائل عرب میں جو انہی بے ہودہ مفاخر کی بناء پر آپس میں لڑتے رہتے تھے اور جس کی وجہ سے عرب کا سارا خطہ ایک میدان کارزار بن گیا تھا، ان کی باہمی رقابت اور مفاخرت کا زور بالکل گھٹ گیا۔ امیر المومنین کا لقب کیوں اختیار کیا