الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صیغہ عدالت محکمہ قضاء یہ صیغہ بھی اسلام میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بدولت وجود میں آیا۔ ترقی تمدن کا پہلا دیباچہ یہ ہے کہ صیغہ عدالت، انتظامی صیغے سے علیحدہ قائم کیا جائے۔ دنیا میں جہاں جہاں حکومت و سلطنت کے سلسلے قائم ہوئے۔ مدتوں کے بعد ان دونوں صیغوں میں تفریق ہوئی۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت کے چند ہی روز بعد اس صیغے کو الگ کر دیا تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے تک خود خلیفہ وقت اور افسران ملکی قضاء کا کام بھی کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابتداء میں یہ رواج قائم رکھا۔ اور ایسا کرنا ضروری تھا۔ حکومت کا نظم و نسق جب تک کامل نہیں ہو لیتا، ہر صیغے کا اجراء رعب و داب کا محتاج رہتا ہے اس لیے فصل قضایا کا کام وہ شخص انجام نہیں دے سکتا جس کو فصل قضایا کے سوا اور کوئی اختیار نہ ہو۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابو موسیٰ شعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکھا کہ جو شخص با اثر اور صاحب عظمت نہ ہو قاضی نہ مقرر کیا جائے (اخبار القضاء لمحمد بن خلف ابو کیع) بلکہ اسی بناء پر عبد اللہ بند مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قضایا سے روک دیا تھا۔ لیکن جب انتظام کا سکہ اچھی طرح جم گیا۔ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قضاء کا صیغہ بالکل الگ کر دیا۔ اور تمام اضلاع میں عدالتیں قائم کیں۔ اور قاضی مقرر کئے اس کے ساتھ قضاء کے اصول و آئین پر ایک فرمان بھیجا جو ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ گورنر کوفہ کے نام تھا۔ اور جس میں صیغہ عدالت کے تمام اصولی احکام درج تھے۔ ہم اس کو بعینہ اس مقام نقل کرتے ہیں۔ (اس فرمان کو علامہ ابو اسحقٰ شیرازی نے طبقات فقہاء میں اور علامہ بیہقی و موردی و جاحظ و ابن عبد رجہ اور بہت سے محدثین اور مؤرخین نے نقل کیا ہے۔ ) رومن ایمپائر کے دوازدہ (451ء قبل مسیح رومن ایمپائر نے یونان میں سفراء بھیجے کہ وہاں قانون کی تعلیم حاصل کر کے آئیں اور سلطنت کے لیے ایک مستقل قانون بنائیں۔ یہ سفراء یونان گئے اور وہاں سے واپس آ کر ایک دستور العمل تیار کیا۔ جس میں بارہ امور انتظامی پر بارہ بارہ قاعدے تھے۔ یہ تمام قواعد سیسہ کی تختی پر کندہ کئے گئے اور مدت تک رومن ایمپائر کا وہی قانون رہا۔ اس میں صیغہ قضاء کے متعلق جو احکام تھے وہ حسب ذیل ہیں : 1 – جب تم عدالت میں طلب کئے جاؤ تو فوراً فریق مقدمہ کے ساتھ حاضر ہو۔ 2 – اگر مدعا علیہ انکار کرے تو تم گواہ پیش کرو تا کہ وہ جبراً حاضر کیا جاوے۔ 3 – مدعا علیہ بھاگنا چاہے تو تم اس کو پکڑ سکتے ہو۔ 4 - مدعا علیہ بیمار یا بوڑھا ہو تو تم اس کو سواری دو، ورنہ اس پر حاضری کے لیے جبر نہیں کیا جا سکتا۔