الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فوج میں خزانچی و محاسب و مترجم فوج کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اور بہت سی ایجاد ہیں جن کا عرب میں کبھی وجود نہ ملا تھا۔ مثلاً ہر فوج کے ساتھ ایک افسر خزانہ، ایک محاسب، ایک قاضی اور متعدد مترجم ہوتے تھے۔ ان کے علاوہ متعدد طبیب اور جراح ہوتے تھے۔ چنانچہ جنگ قادسیہ میں عبد الرحمٰن بن ربیعہ قاضی، زیاد بن ابی سفیان محاسب، ہلال ہجری مترجم تھے۔ (طبری واقعات 14 ہجری صفحہ 226)۔ فوج میں محکمہ عدالت سررشتہ حساب و مترجمی اور ڈاکٹری کی ابتداء بھی اسی زمانے سے ہے۔ فن جنگ میں ترقی فوجی قواعد کی نسبت ہم کو صرف اس قدر معلوم ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوجی افسروں کو جو احکام بھیجتے تھے ان میں چار چیزوں کے سیکھنے کی تاکید ہوتی تھی، تیرنا، گھوڑے دوڑانا، تیر لگانا، ننگے پاؤں چلنا۔ اس کے سوا ہم کو معلوم نہیں کہ فوج کو اور کسی قسم کی قواعد بھی سکھائی جاتی تھی۔ تاہم اس میں شبہ نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں سابق کی نسبت فن جنگ نے بہت ترقی کی۔ عرب میں جنگ کا پہلا طریقہ یہ تھا کہ دونوں طرف کے غول بے ترتیب کھڑے ہو جاتے تھے۔ پھر دونوں طرف سے ایک ایک سپاہی نکل کر لڑتا تھا۔ اور باقی تمام فوج چپ کھڑی رہتی تھی۔ اخیر میں عام حملہ ہوتا تھا۔ اسلام کے آغاز میں صف بندی کا طریقہ جاری ہوا تھا۔ اور فوج کے مختلف حصے قرار پائے مثلاً میمنہ، میسرہ، وغیرہ لیکن ہر حصہ بطور خود لڑتا تھا۔ یعنی تمام فوج کسی ایک سپہ سالار کے نیچے رہ کر نہیں لڑتی تھی۔ سب سے پہلے 15 ہجری میں یرموک کے معرکہ میں حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بدولت تعبیہ کی طرز پر جنگ ہوئی (علامہ ابن خلدون نے مقدمہ تاریخ میں فصل فی الحروب کے عنوان سے عرب اور فارس و روم کے طریقہ جنگ پر ایک مضمون لکھا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ تعبیہ کا طریقہ اول اول مروان بن الحکم نے قائم کیا۔ لیکن یہ غلط ہے۔ طبری اور دیگر مؤرخین نے بتصریح لکھا ہے کہ یرموک کے معرکہ میں اول اول خالد نے تعبیہ کی طرز پر صف آرائی کی تھی)۔ یعنی کل فوج جس کی تعداد چالیس ہزار کے قریب تھی، 36 صفوں میں تقسیم ہو کر حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ماتحتی میں کام کرتی تھی اور وہ تمام فوج کو تنہا لڑاتے تھے۔ فوج کے مختلف حصے قلب سپہ سالار اسی حصے میں رہتا تھا۔ مقدمہ قلب کے آگے کچھ فاصلے پر ہوتا تھا۔