الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مسلمانوں کے ساتھ عشر کے تخصیص اگرچہ بظاہر ایک قسم کی ناانصافی یا قومی ترجیح معلوم ہوتی ہے لیکن فی الواقع ایسا نہیں ہے۔ اولاً تو مسلمانوں کو بمقابلہ ذمیوں کے بہت سی زائد رقمیں ادا کرنی پڑتی تھیں مثلاً مویشی پر زکوٰۃ، گھوڑوں پر زکوٰۃ، روپے پر زکوٰۃ۔ حالانکہ ذمی ان تمام محصولات سے بالکل مستثنیٰ تھے۔ اس بناء پر خاص زمین کے معاملے میں جو نہایت اقل قلیل مسلمانوں کے قبضے میں آئی تھی اس قسم کی رعایت بالکل مقتضائے انصاف تھی۔ دوسرے یہ کہ عشر ایک ایسی رقم تھی جو کسی حالت میں کم یا معاف نہیں ہو سکتی تھی۔ یہاں تک کہ خود خلیفہ یا بادشاہ معاف کرنا چاہے تو معاف نہیں کر سکتا تھا۔ بخلاف اس کے خراج میں تخفیف اور معافی دونوں جائز تھی۔ اور وقتاً فوقتاً اس پر عمل درآمد بھی ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ خراج سال میں صرف ایک دفعہ لیا جاتا تھا۔ بخلاف اس کے عشر کا یہ حال تھا کہ سال میں جتنی فصلیں ہوتی تھیں سب کی پیداوار سے الگ الگ وصول کیا جاتا تھا۔ اور قسم کی آمدنیاں خراج و عشر کے سوا آمدنی کے جو اور اقسام تھے ، وہ حسب ذیل تھے : زکوٰۃ، عشور، جزیہ، مال غنیمت کا خمس، زکوٰۃ مسلمانوں کے ساتھ مخصوص تھیں اور مسلمانوں کی کسی قسم کی جائیداد یا آمدنی اس سے مستؑنی نہ تھی۔ یہاں تک کہ بھیڑ، بکری، اونٹ سبھی پر زکوٰۃ تھی۔ زکوٰۃ کے متعلق تمام احکام خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں مرتب ہو چکے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں جو اضافہ ہوا یہ تھا کہ تجارت کے گھوڑوں پر زکوٰۃ مقرر ہوئی۔ گھوڑوں پر زکوٰۃ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے گھوڑوں کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ فرمایا تھا لیکن اس سے عیاذا باللہ یہ نہیں خیال کرنا چاہیے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جو الفاظ فرمائے تھے اس سے بظاہر سواری کے گھوڑے مفہوم ہوتے ہیں۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مفہوم کو قائم رکھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت میں تجارت کے گھوڑے وجود نہیں رکھتے تھے۔ اس لیے ان کے زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہونے کی کوئی وجہ نہیں تھیں۔ بہر حال زکوٰۃ کی مد میں یہ ایک نئی آمدنی تھی۔ اور اول اول حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں شروع ہوئی۔