الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
قادسیہ کی جنگ اور فتح (قادسیہ عراق عرب کا مشہور شہر تھا اور مدائن سبعہ کے وسط میں تھا۔ اب ویران پڑا ہوا ہے۔ ہمارے نقشے میں اس کو شہر مدائن کے متصل سمجھنا چاہیے۔ ) محرم 14 ہجری (635 عیسوی) رستم اب تک لڑائی کو برابر ٹالتا جاتا تھا لیکن مغیرہ کی گفتگو نے اس کو اس قدر غیرت دلائی کہ اسی وقت کمر بندی کا حکم دیا۔ نہر جو بیچ میں حائل تھی حکم دیا صبح ہوتے ہوتے پاٹ کر سڑک بنا دی جائے۔ صبح تک یہ کام انجام کو پہنچا۔ اور دوپہر سے پہلے فوج نہر کے اس پار آ گئی۔ خود سامان جنگ سے آراستہ ہوا۔ دسہری زرہیں پہنیں، سر پر خود رکھا۔ ہتھیار لگائے پھر اسپ خاصہ طلب کیا۔ اور سوار ہو کر جوش میں کہا کہ " کل عرب کو چکنا چور کر دوں گا۔ " کسی سپاہی نے کہا " ہاں اگر خدا نے چاہا" بولا کہ " خدا نے نہ چاہا تب بھی۔ " فوج کو نہایت ترتیب سے آراستہ کیا۔ آگے پیچھے صفیں قائم کیں۔ قلب کے پیچھے ہاتھیوں کا قلعہ باندھا۔ ہودجوں اور عماریوں میں ہتھیار بند سپاہی بٹھائے۔ میمنہ و میسرہ کے پیچھے قلعہ کے طور پر ہاتھیوں کے پرے جمائے۔ خبر رسانی کے لیے موقع جنگ سے پایہ تخت تک کچھ کچھ فاصلے پر آدمی بیٹھا دیئے جو واقعہ پیش آتا تھا۔ موقع جنگ کا آدمی چلا کر کہتا تھا۔ اور درجہ بدرجہ مدائن تک خبر پہنچ جاتی تھی۔ قادسیہ میں ایک قدیم شاہی محل تھا جو عین میدان کے کنارے پر واقع تھا۔ سعد کو چونکہ عرق النساء کی شکایت تھی اور چلنے پھرنے سے معذور تھے۔ اس لیے فوج کے ساتھ شریک نہ ہو سکے۔ بالاخانے پر میدا ن کی طرف رخ کر کے تکیہ کے سہارے سے بیٹھے اور خالد بن عرطفہ کو اپنے بجائے سپہ سالار مقرر کیا۔ تاہم فوج کو لڑاتے خود تھے۔ یعنی جس وقت جو حکم دینا مناسب ہوتا تھا پرچوں پر لکھوا کر اور گولیاں بنا کر خالد کی طرف پھینکتے جاتے تھے۔ اور خالد انہی ہدایتوں کے موافق موقع بہ موقع لڑائی کا اسلوب بدلتے جاتے تھے۔ تمدن کے ابتدائی زمانے میں فن جنگ کا اس قدر ترقی کرنا تعجب کے قابل اور عرب کی تیزی طبع اور لیاقت جنگ کی دلیل ہے۔ فوجیں آراستہ ہو چکیں تو عرب کے مشہور شعراء اور خطیب صفوں سے نکلے اور اپنی آتش بیانی سے تمام فوج میں آگ لگا دی۔ شعرا میں شماخ، حطیئہ، اوس بن مغراء عبدۃ بن الطیب، عمرو بن معدی کرب اور خطیبوں میں قیس بن ہبیرہ، غالب بن