الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اسلام کا گرویدہ ہو گیا۔ اور آخر دو ہزار آدمیوں کے ساتھ مسلمان ہو گیا۔ (تاریخ مقریزی صفحہ 226 میں ہے۔ فخرج شطا فی الفین من اصحابہ ولحق بالمسلمین و قد کان قبل ذلک یحب الخیر و یمیل الی ما یسمعہ من سیرۃ اھل الاسلام)۔ اسلامی فتوحات کی بوالعجبی نے بھی اس خیال کو قوت دی، یہ واقعہ کہ چند صحرا نشینوں کے آگے بڑی بڑی قدیم اور پر زور قوموں کا قدم اکھڑتا جاتا ہے۔ خوش اعتقاد قوموں کے دل میں خود بخود خیال پیدا کرتا تھا کہ اس گروہ کے ساتھ تائید آسمانی شامل ہے۔ یزدگرد شہنشاہ فارس نے جب خاقان چین کے پاس استمداد کی غرض سے سفارت بھیجی تو خاقان نے اسلامی فوج کے حالات دریافت کئے اور حالات سن کر یہ کہا کہ " ایسی قوم سے مقابلہ کرنا بے فائدہ ہے۔ اشاعت اسلام کے اسباب فارس کے معرکہ میں جب پارسیوں کا ایک مشہور بہادر بھاگ نکلا اور سردار فوج نے اس کو گرفتار کر کے بھاگنے کی سزا دینی چاہی تو اس نے ایک بڑی پتھر کو تیر سے توڑ کر کہا کہ یہ " تیر بھی جس لوگوں پر اثر نہیں کرتے خدا ان کے ساتھ ہے۔ اور ان سے لڑنا بیکار ہے (طبری واقعات جنگ فارس)۔ ابو رجاء فارسی کے دادا کا بیان ہے کہ قادسیہ کی لڑائی میں میں حاضر تھا اور اس وقت تک میں مجوسی تھا۔ عرب نے جب تیر اندازی شروع کی تو ہم نے تیروں کو دیکھ کر کہا کہ " تکلے ہیں۔ " لیکن ان ہی تکلوں نے ہماری سلطنت برباد کر دی۔ " مصر پر جب حملہ ہوا تو اسکندریہ کے بشپ نے قبطیوں کو لکھا کہ " رومیوں کی سلطنت ختم ہو چکی ہے۔ اب تم مسلمانوں سے مل جاؤ۔ " (مقریزی جلد اول صفحہ 280)۔ ان باتوں کے ساتھ کچھ اور اسباب بھی اسلام کے پھیلنے کا سبب ہوئے۔ عرب کے قبائل جو عراق اور شام میں آباد تھے اور عیسائی ہو گئے تھے فطرۃً جس قدر ان کا میلان ایک نبی عربی کی طرف ہو سکتا تھا غیر قوم کی طرف نہیں ہو سکتا تھا۔ چنانچہ جس قدر زمانہ گزرتا گیا وہ اسلام کے حلقے میں آتے گئے۔ یہی بات ہے کہ اس عہد کے نومسلم جس قدر عرب تھے اور قومیں نہ تھیں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بعض بڑے بڑے پیشوائے مذہبی مسلمان ہو گئے تھے۔ مثلاً دمشق جب فتح ہوا تو وہاں کا بشپ جس کا نام اردکون تھا حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر اسلام لایا (معجم البلدان ذکر قطرۃ سنان)۔ ایک پیشوائے مذہب کے مسلمان ہونے سے اس کے پیروؤں کو خواہ مخواہ اسلام کی طرف رغبت ہوئی ہو گی۔ ان مختلف اسباب سے نہایت کثرت کے ساتھ لوگ ایمان لائے۔ افسوس ہے کہ ہمارے مؤرخین نے کسی موقع پر اس واقعہ کو مستقل عنوان سے نہیں لکھا۔ اس کی وجہ سے ہم تعداد کا اندازہ نہیں بتا سکتے۔ تاہم ضمنی تذکروں سے کسی قدر پتہ لگ سکتا ہے چنانچہ ہم ان کو اس موقع پر بیان کرتے ہیں۔