الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے وجہ سے ہمیشہ آباد رہتی ہے اور ہر وقت لوگوں کا مجمع رہے گا۔ چنانچہ سعد بن وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم سے روزابہ نے بیت المال کی عمارت کو اس قدر وسیع کیا کہ مسجد سے مل گئی اور اس طرح چوری وغیرہ کی طرف سے اطمینان ہو گیا۔ (یہ تمام تفصیل تاریخ طبری ذکر آبادی کوفہ میں ہے )۔ معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ مابعد میں زیادہ احتیاط کے لحاظ سے خزانے پر سپاہیوں کا پہرہ بھی رہنے لگا تھا۔ بلاذری نے لکھا ہے کہ جب طلحہ و زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے باغی ہو کر بصرہ آئے اور خزانہ پر قبضہ کرنا چاہا تو سیاحہ کے 40 سپاہی خزانہ کے پہرے پر متعین تھے۔ اور انہوں نے طلحہ و زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ارادے کی مزاحمت کی۔ سیاحہ کی نسبت اسی مؤرخ نے تصریح کی ہے کہ وہ سندھ سے گرفتار ہو کر آئے تھے اور ایرانیوں کے فوج میں داخل تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جب ایران فتح ہوا تو یہ قوم مسلمان ہو گئی اور ابو موسیٰ نے ان کو بصرہ میں آباد کرایا۔ (فتوح البلدان از صفحہ 373 تا 376)۔ صوبجات اور اضلاع میں جو خزانے تھے ان کا یہ انتظام تھا کہ جس قدر رقم وہاں کے ہر قسم کے مصارف کے لیے ضروری ہوتی تھی رکھ لی جاتی تھی۔ باقی سال کے ختم ہونے کے بعد صدر خزانہ یعنی مدینہ منورہ کے بیت المال میں بھیج دی جاتی تھی۔ اس کے متعلق عمال کے نام حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تاکیدی احکام آتے رہتے تھے۔ (عمرو بن العاص گورنر مصر کو جو فرمان لکھا گیا تھا اس میں یہ الفاظ تھے " فاذا حصل الیک و جمعۃ اخرجت عطاء المسلمین وما یحتاج الیہ مما لا بدمنہ ثم انظر فیما فضل بعد ذلک فاحملہ الی۔ " کنز العمال بحوالہ ابن سعد جلد 3 صفحہ 63)۔ یہ دریافت کرنا مشکل ہے کہ ہر جگہ کے خزانے میں کس قدر رقم محفوظ رہتی تھی۔ جو رقم دارالخلافہ کے خزانے میں رہتی تھی مؤرخ یعقوبی کی تصریح سے اس قدر معلوم ہے کہ دارالخلافہ کے خزانے سے خاص دارالخلافہ کے باشندوں کو جو تنخواہیں اور وظائف مقرر تھے ، اس کی تعداد تین کروڑ سالانہ تھی۔ بیت المال کے حفاظت اور نگرانی میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو اہتمام تھا، اس کے متعلق تاریخوں میں بہت سے دلچسپ واقعات ہیں جن کی تفصیل ہم نظر انداز کرتے ہیں۔