الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مسلمانوں اور ذمیوں کی ہمسری حقیقت یہ ہے کہ واقعات سے جو نتیجہ استنباط کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ملکی حقوق کے لحاظ سے ذمیوں اور مسلمانوں میں کوئی تمیز نہیں رکھی تھی۔ کوئی مسلمان اگر ذمی کو قتل کرتا تو بے دریغ اس کے قصاص میں قتل کر دیا جاتا تھا۔ مسلمان اگر کسی ذمی سے سخت کلامی کرتے تھے تو پاداش کے مستحق ہوتے تھے۔ ذمیوں سے جزیہ اور عشور کے سوا کسی قسم کا محصول نہیں لیا جاتا تھا۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں سے زکوٰۃ وصول کی جاتی تھی۔ جس کی مقدار دونوں سے زیادہ تھی۔ اس کے سوا عشور مسلمانوں سے بھی وصول کیا جاتا۔ البتہ اس کی شرح بمقابلہ ذمیوں کے کم تھی۔ بیت المال سے والنٹیروں کو گھر بیٹھے جو تنخواہ ملتی تھی ذمی اس میں بھی برابر کے شریک تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ (اور درحقیقت صرف اسی ایک مثال سے اس بحث کا فیصلہ ہو سکتا ہے ) کہ یہ جو قاعدہ تھا کہ جو مسلمان اپاہج اور ضعیف ہو جاتا تھا اور محنت و مزدوری سے معاش پیدا نہیں کر سکتا تھا، بیت المال سے اس کا وظیفہ مقرر ہو جاتا تھا۔ اسی قسم کی بلکہ اس سے زیادہ فیاضانہ رعایت ذمیوں کے ساتھ بھی تھی۔ اول اول یہ قاعدہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں مقرر ہوا۔ چنانچہ خالد بن الولید نے جبرہ کی فتح میں جو معاہدہ لکھا، اس میں یہ الفاظ تھے۔ وجعلت لھم ایما شیخ ضعف عن العمل او اصابہ افۃ من الافات او کان غنیا فافتقر و صار اھل دینہ یتصدقون علیہ و طرحت جزیتہ و عیل من بیت مال المسلمین و عیالہ مااقامو ابدار امجرۃ و دار الاسلام ولو ذھبوا فلیس علی المسلمین النفقۃ علی عیالھم (کتاب الخراج صفحہ 85)۔ "اور میں نے ان کو یہ حق دیا کہ اگر کوئی بوڑھا شخص کام کرنے سے معذور ہو جائے یا اس پر کوئی آفت آئے یا پہلے دولت مند تھا پھر غریب ہو گیا اور اس وجہ سے اس کے ہم مذہب اس کو خیرات دینے لگیں تو اس کا جزیہ موقوف کر دیا جائے گا۔ اور اس کو اور اس کی اولاد کو مسلمانوں کے بیت المال سے نفقہ دیا جائے گا جب تک وہ مسلمانوں کے ملک میں رہے لیکن اگر وہ غیر ملک میں چلا جائے تو مسلمانوں پر اس کا نفقہ واجب نہ ہو گا۔ " یہ قاعدہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں بھی قائم رہا بلکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس قرآن مجید کی آیت سے مستند کر دیا یعنی بیت المال کے داروغہ کو لکھ بھیجا کہ قرآن مجید کی آیت " انما الصدقات للفقرء والمسکین" (صدقہ اور خیرات فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہے ) اس میں فقراء کے لفظ سے مسلمان اور مسکین کے لفظ سے اہل کتاب یہودی اور