الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یہ شہر بہر شام کے ساحل پر واقع ہے اور فلسطین کے اضلاع میں شمار کیا جاتا ہے۔ آج ویران پڑا ہے۔ لیکن اس زمانے میں بہت بڑا شہر تھا۔ اور بقول بلاذری کے تین سو بازار آباد تھے۔ اس شہر پر اول 13 ہجری (635 عیسوی) میں عمرو بن العاص نے چڑھائی کی۔ اور مدت تک محاصرہ کئے پڑے رہے لیکن فتح نہ ہو سکا۔ ابو عبیدہ کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یزید بن ابی سفیان کو ان کی جگہ مقرر کیا تھا اور حکم دیا کہ قیساریہ کی مہم پر جائیں۔ وہ 17 ہزار کی جمعیت کے ساتھ روانہ ہوئے اور شہر کا محاصرہ کیا لیکن 18 ہجری (639 عیسوی) میں جب بیمار ہوئے تو امیر معاویہ (اپنے بھائی) کو اپنے قائم مقام کر کے دمشق چلے آئے۔ اور یہیں وفات پائی۔ امیر معاویہ نے بڑے ساز و سامان سے محاصرہ کیا۔ شہر والے کئی دفعہ قلعہ سے نکل نکل کر لڑے۔ لیکن ہر دفعہ شکست کھائی۔ تاہم شہر پر قبضہ نہ ہو سکا۔ ایک دن ایک یہودی نے جس کا نام یوسف تھا، امیر معاویہ کے پاس آ کر ایک سرنگ کا نشان دیا جو شہر کے اندر اندر قلعہ کے دروازے تک گئی تھی۔ چنانچہ چند بہادروں نے اس کی راہ قلعہ کے اندر پہنچ کر دروازہ کھول دیا۔ ساتھ ہی تمام فوج ٹوٹ پڑی اور کشتوں کے پشتے لگا دیئے۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ کم سے کم عیسائیوں کی اسی ہزار فوج تھی جس میں بہت کم زندہ بچی۔ چونکہ یہ ایک مشہور مقام تھا، اس کی فتح سے گویا شام کا مطلع صاف ہو گیا۔ جزیرہ 16 ہجری (637 عیسوی) (جزیرہ اس حصہ آبادی کا نام ہے جو دجلہ اور فرات کے بیچ میں ہے۔ اس کی حدوداربعہ یہ ہیں مغرب آرمینیہ کا کچھ حصہ اور ایشیائے کوچک، جنوب شام، مشرق عراق، شمال آرمینیہ کے کچھ حصے۔ یہ مقام درج نقشہ ہے۔ ) مدائن کی فتح سے دفعتہً تمام عجم کی آنکھیں کھل گئیں۔ عرب کو یا تو وہ تحقیر کی نگاہ سے دیکھتے تھے یا اب ان کو عرب کے نام سے لرزہ آتا تھا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ہر صوبے نے بجائے خود عرب کے مقابلے کی تیاریاں شروع کیں، سب سے پہلے جزیرہ نے ہتھیار سنبھالا کیونکہ اس کی سرحد عراق سے بالکل ملی ہوئی تھی۔ سعد نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان حالات کی اطلاع دی۔ وہاں سے عبد اللہ بن المعتم مامور ہوئے اور چونکہ حضرت عمر رضی اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس معرکہ کا خاص خیال تھا اس لیے افسروں کو بھی خود ہی نامزد کیا۔ چنانچہ مقدمۃ الجیش پر ربعی بن الافکل، میمنہ حارث بن حسان، میسرہ پر فرات بن حیان، ساقہ پر ہانی بن قیس مامور ہوئے۔ عبد اللہ بن المعتم پانچ ہزار کی جمیعت سے تکریت (تکریت جزیرہ کا سب سے آبائی شہر ہے جس کی حد عراق سے ملی ہوئی ہے۔ دجلہ کے غربی جانب واقع ہے اور موصل سے 6 منزل پر ہے ) کی طرف بڑھے اور شہر کا محاصرہ کیا۔ مہینے سے زیادہ محاصرہ رہا اور 24 دفعہ حملے ہوئے۔ چونکہ عجمیوں کے ساتھ عرب کے چند قبائل یعنی ایاد، تغلب، نمر بھی شریک تھے۔ عبد اللہ نے خفیہ پیغام بھیجا اور غیرت دلائی کہ تم عرب ہو کر عجم کی غلامی کیوں گوارا کرتے ہو؟ اس کا اثر یہ ہوا کہ سب نے اسلام قبول کیا۔ اور کہلا بھیجا کہ تم شہر پر حملہ کرو ہم عین موقع پر عجمیوں سے