الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
سے قریب تھی۔ اور پشت پر عرب کی سرحد تک کھلا میدان تھا۔ جس سے یہ موقع حاصل تھا کہ ضرورت پر جہاں تک چاہیں پیچھے ہٹتے جائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سعید بن عامر کے ساتھ جو فوج روانہ کی تھی وہ ابھی نہیں پہنچی تھی۔ ادھر رومیوں کی آمد اور ان کے سامان کا حال سن سن کر مسلمان گھبرائے جاتے تھے۔ ابو عبیدہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک قاصد دوڑایا۔ اور لکھا کہ " رومی بحر و بر سے اُبل پڑے ہیں۔ اور جوش کا یہ حال ہے کہ فوج جس راہ سے گزرتی ہے راہب اور خانقاہ نشین جنہوں نے کبھی خلوت سے قدم باہر نہیں نکالا تھا۔ نکل نکل کر فوج کے ساتھ ہوتے جاتے ہیں۔ " خط پہنچا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مہاجرین اور انصار کو جمع کیا اور خط پڑھ کر سنایا۔ تمام صحابہ بے اختیار رہ پڑے اور نہایت جوش کے ساتھ پکار کر کہا کہ " امیر المومنین، خدا کے لیے ہم کو اجازت دیجیئے کہ ہم اپنے بھائیوں پر جا کر نثار ہو جائیں۔ خدانخواستہ ان کا بال بیکا ہوا تو پھر جینا بے سود ہے۔ مہاجر و انصار کا جوش بڑھتا جاتا تھا یہاں تک کہ عبد الرحمٰن بن عوف نے کہا کہ امیر المومنین، تو خود سپہ سالار بن اور ہم کو ساتھ لے کر چل، لیکن اور صحابہ نے اس رائے سے اختلاف کیا۔ اور رائے یہ ٹھہری کہ اور امدادی فوجیں بھیجی جائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قاصد سے دریافت کیا کہ دشمن کہاں تک آ گئے ہیں؟ اس نے کہا کہ یرموک سے تین چار منزل کا فاصلہ رہ گیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت غمزدہ ہوئے اور فرمایا کہ " افسوس اب کیا ہو سکتا ہے ؟ اتنے عرصہ میں کیونکر مدد پہنچ سکتی ہے۔ " ابو عبیدہ کے نام نہایت پُر تاثیر الفاظ میں ایک خط لکھا اور قاصد سے کہا کہ خود ایک ایک صف میں جا کر یہ خط سنانا اور زبانی کہنا۔ الاعمر یفرلگ السلام و یقول لکم یا احل الاسلام اصدقو اللقاء و تشدوا علیھم شد اللبوت ولیکونوا اھون علیکم من اللو فانا قد کما علمنا الکم علیھم منصورون۔ یہ ایک عجیب حسن اتفاق ہوا کہ جس دن قاصد ابو عبیدہ کے پاس آیا۔ اسی دن عامر بھی ہزار آدمی کے ساتھ پہنچ گئے۔ مسلمانوں کو نہایت تقویت ہوئی اور انہوں نے نہایت استقلال کے ساتھ لڑائی کی تیاریاں شروع کیں۔ رومی فوجیں یرموک کے مقابل دیر الجبل میں اتریں۔ خالد نے لڑائی کی تیاریاں شروع کیں۔ معاذ بن جبل کو جو بڑے رتبہ کے صحافی تھے ، میمنہ پر مقرر کیا۔ قباث بن الثھم کو میسرہ اور ہاشم بن عتبہ کو پیدل فوج کی افسری دی۔ اپنے رکاب کی فوج کے چار حصے کئے۔ ایک کو اپنی رکاب میں رکھا۔ باقی پر قیس بن بیرہ، میرہ بن مسروق، عمرو بن الطفیل کو مقرر کیا۔ یہ تینوں بہادر تمام عرب میں انتخاب تھے۔ اور اس وجہ سے فارس العرب کہلاتے تھے۔ رومی بھی بڑے سر و سامان سے نکلے۔ دو لاکھ سے زیادہ کی جمعیت تھی۔ اور 24 صفیں تھیں۔ جس کے آگے آگے مذہبی پیشوا ہاتھوں میں صلیبیں لئے جوش دلاتے جاتے تھے۔ فوجیں بالکل مقابل آ گئیں تو ایک بطریق صف چیر کر نکلا اور کہا کہ میں تنہا لڑنا چاہتا ہوں۔ میسرہ بن مسروق نے گھوڑا بڑھایا مگر چونکہ حریف نہایت تنومند اور جوان تھا، خالد نے روکا اور قیس بن ببیرہ کی طرف دیکھا۔ وہ یہ اشعار پڑھتے ہوئے بڑھے۔