الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تیسرا امر یعنی صحتِ اعراب و صحت تلفظ، اس کے لیے بھی نہایت اہتمام کیا۔ اور درحقیقت یہ سب سے مقدم تھا۔ قرآن مجید جب مرتب و مدون ہوا تھا تو اعراب کے ساتھ نہیں ہوا تھا۔ اس لئے قرآن مجید کا شائع ہونا کچھ زیادہ مفید نہ تھا۔ اگر صحت اعراب و تلفظ کا اہتمام نہ کیا جاتا تو اسلام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے لئے مختلف تدبیریں اختیار کیں۔ سب سے اول یہ کہ ہر جگہ تاکیدی احکام بھیجے کہ قرآن مجید کے ساتھ صحت الفاظ و صحت اعراب کی بھی تعلیم دی جائے۔ ان کے خاص الفاظ حسب روایت ابن الابناری یہ ہیں " تعلموا اعراب القران کما تعلمون حفظہ" اور مسند دارمی میں یہ الفاظ ہیں " تعلمون الفرائض واللحن والسنن کما تعلمون القرآن"۔ ادب اور عربیت کی تعلیم دوسرے یہ کہ قرآن کی تعلیم کے ساتھ ادب اور عربیت کی تعلیم بھی لازمی کر دی تا کہ خود لوگ اعراب کی صحت و غلطی کی تمیز کر سکیں۔ تیسرے یہ حکم دیا کہ کوئی شخص جو لغت کا عالم نہ ہو قرآن نہ پڑھانے پائے۔ (کنز العمال جلد اول صفحہ 28۔ قرآن مجید کے بعد حدیث کا درجہ آتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اگرچہ حدیث کی ترویج میں نہایت کوشش کی۔ لیکن احتیاط کو ملحوظ رکھا اور یہ ان کی دقیقہ سنجی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ وہ بجز مخصوص صحابہ کے عام لوگوں کو روایت حدیث کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ حدیث کی تعلیم شاہ ولی اللہ صاحب تحریر فرماتے ہیں، " چنانچہ فاروق اعظم رحمۃ اللہ علیہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ رابا جمعے بکوفہ فرستادو معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عبد اللہ بن مغفل و عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، رلبہ بصرہ و عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ و ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ – رابشام و بہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ امیر شام بود قدغن بلیغ نوشت کہ از حدیث ایشان تجاوز نہ کند" (ازالۃ الخفاء صفحہ 6 – موطا امام محمد صفحہ 227)۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت حدیث کے متعلق جو اصول قائم کئے تھے وہ ان کی نکتہ سنجی کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ لیکن اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ ان کے ذاتی حالات میں ان کے فضل و کمال کا جہاں ذکر آئے گا ہم اس کے متعلق نہایت تفصیل سے کام لیں گے۔ فقہ