الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صلیب اور ناقوس کی بحث ذمیوں کو نئی عبادت گاہیں بنانے اور شراب بیچنے ، صلیب نکالنے ، ناقوس پھونکنے ، اصطباغ دینے سے روکنا بے شبہ مذہبی دست اندازی ہے لیکن میں بیباکانہ اس راز کی پردہ دری کرتا ہوں کہ یہ احکام جن قیدوں کے ساتھ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جاری کئے تھے وہ بالکل مناسب تھے لیکن زمانہ ما بعد کے مؤرخوں نے اس قیدوں کا ذکر چھوڑ دیا۔ اس وجہ سے تمام دنیا میں ایک عالمگیر غلط فہمی پھیل گئی۔ صلیب کی نسبت معاہدے میں جو الفاظ تھے اس میں یہ قید تھی۔ ولا یرفعوا فی نادی اھل الاسلام صلیباً (کتاب الخراج صفحہ 80)۔ "یعنی مسلمانوں کی مجلس میں صلیب نہ نکالیں۔ " ناقوس کی نسبت یہ تصریح تھی یضربوا نواقیسھم فی ایۃ ساعۃ شائووا من الیل او نھار الا فی اوقات الصلوۃ (کتاب الخراج صفحہ 84)۔ یعنی ذمی رات دن میں جس وقت چاہیں ناقوس بجائے ، بجز نماز کے اوقات کے۔ سور کی نسبت یہ الفاظ تھے۔ ولا یخرجوا خنزیرا من منازلھم الہ افنیۃ المسلمین یعنی ذمی سور کو مسلمان کے احاطے میں نہ لے جائیں۔ ان تصریحات کے بعد کس کو شبہ رہ سکتا ہے کہ صلیب نکالنا یا ناقوس بجانا عموماً منع نہ تھا۔ بلکہ خاص حالات میں ممانعت تھی اور ان خاص حالات میں آج بھی ایسی ممانعت خلاف انصاف نہیں کہی جا سکتی۔ سب سے زیادہ قابل لحاظ امر بنی تغلب کے عیسائیوں کی اولاد کا اصطباغ دینا تھا اور یہ گویا اس بات کی حفاظت ہے کہ آئندہ وہ کوئی اور مذہب قبول نہ کرنے پائے بے شبہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عام طور پر اس رسم کو روکنے کا کچھ حق نہ تھا۔ لیکن اس زمانے میں ایک نیا سوال پیدا ہوتا تھا۔ یعنی یہ کہ اگر عیسائی خاندان میں سے کوئی شخص مسلمان ہو جائے اور نابالغ اولاد چھوڑ کر مرے تو اس کی اولاد کس مذہب پر پرورش پائے گی؟ یعنی وہ مسلمان سمجھی جائے گی یا ان کے خاندان والوں کو جو عیسائی مذہب رکھتے ہیں یہ حق حاصل ہو گا۔ کہ اس کو اصطباغ دے کر عیسائی بنا لیں۔