الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ان مہمات اصول کے سوا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے استنباط احکام اور تفریح مسائل کے اور بہت سے قاعدے مقرر کئے جو آج ہمارے علم اصول فقہ کی بنیاد ہیں۔ لیکن ان کی تفصیل سے پہلے ایک نکتہ سمجھ لینا چاہیے۔ استنباط احکام کے اصول یہ امر مسلم ہے کہ امام ابو حنیفہ و امام مالک وغیرہ مسائل فقہیہ میں نہایت مختلف الرائے ہیں۔ اس اختلاف رائے کی وجہ کہیں کہیں تو یہ ہے کہ بعض مسائل میں ایک صاحب کو حدیث ملی اور دوسرے کو نہیں، لیکن عموماً اختلاف کا یہ سبب ہے کہ ان صاحبوں کے اصول استنباط و اجتہاد مختلف تھے۔ چنانچہ اصول فقہ کی کتابوں میں ان مختلف فیہ اصولوں کو بتفصیل لکھا گیا ہے اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ان ائمہ نے وہ اصول بیان کیئے تھے۔ امام شافعی نے بے شبہ ایک رسالہ لکھا ہے جس میں اپنے چند اصول منضبط کئے ہیں۔ لیکن امام ابو حنیفہ اور امام مالک وغیرہ سے ایک قائد بھی صراحتہً منقول نہیں۔ بلکہ ان بزرگوں نے مسائل کو جس طرح استنباط کیا یا مسائل کے متعلق جو تقریر کی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا استنباط خواہ مخواہ ان اصول کے بناء پر ہے۔ مثلاً ایک امام نے قرآن کی اس آیت سے و اذا قریء القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا سے استدلال کیا کہ مقتدی کو امام کے پیچھے قرأت فاتحہ نہ کرنا چاہیے۔ کسی نے ان سے کہا کہ یہ آیت تو خطبہ کے بارے میں اتری تھی، انہوں نے کہا کہ آیت کسی بارے میں اتری ہو لیکن حکم عام ہے اس سے معلوم ہوا کہ وہ اس اصول کے قائل تھے۔ العبرۃ لعموم اللفظ لا لخصوص السبب یعنی سبب کا خاص ہونا حکم کی تعمیم پر کچھ اثر نہیں کرتا۔ اصول فقہ میں امام ابو حنیفہ وغیرہ کے جو اصول مذکور ہیں، وہ اسی قسم کی صورتوں سے مستنبط کئے گئے ہیں، ورنہ ان بزرگوں سے صراحتہً یہ قاعدے کہیں منقول نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت ہمارا یہ دعویٰ کہ انہوں نے استنباط مسائل کے اصول قائم کئے۔ اسی بناء پر ہے ، اکثر مسائل جو انہوں نے طے کئے۔ صحابہ کے مجمع میں بحث و مناظرہ کے بعد طے کئے ، ان موقعوں پر انہوں نے جو تقریریں کیں، ان کے استقصاء سے بہت سے اصول قائم ہوتے ہیں۔ اکثر مسائل میں متناقض روایتیں یا ماخذ استدلال موجود ہوتے تھے اس لئے ان کو فیصلہ کرنا پڑتا تھا۔ کہ دونوں میں سے کس کو ترجیح دی جائے۔ کس کو ناسخ ٹھہرایا جائے ، کس کو ناسخ ٹھہرایا جائے ، کس کو منسوخ، کس کو عام ٹھہرایا جائے ، کس کو خاص، کس کو موقت مانا جائے ، کس کو موبد، اس طرح نسخ، تخصیص، تطبیق وغیرہ کے متعلق بہت سے اصول قائم ہو گئے۔ مثلاً ایک شخص نے ان سے کہا کہ میرے غلام کے ہاتھ کاٹنے کا حکم کیجئے کیونکہ اس نے میری بیوی کا آئینہ چرایا ہے جس کی قیمت 60 درہم تھی۔ فرمایا کہ تمہارا غلام تھا اور تمہاری چیز چرائی۔ اس پر ہاتھ نہیں کاٹا جا سکتا۔ (مؤطا امام مالک)۔