الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فارس 23 ہجری (644 عیسوی) (حال کے جغرافیہ میں عراق کی حدود گھٹا کر فارس کی حدود بڑھا دی گئی ہیں۔ مگر ہم نے جس وقت کا نقشہ دیا ہے اس وقت فارس کے حدود یہ تھے۔ شمال میں اصفہان جنوب میں بحر فارس مشرق میں کرمان اور مغرب میں عراق۔ عرب اس کا سب سے بڑا اور مشہور شہر شیراز ہے۔ ) فارس پر اگرچہ اول اول 17 ہجری میں حملہ ہوا۔ لیکن چونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اجازت سے نہ تھا اور نہ اس وقت چنداں کامیابی ہوئی۔ ہم نے اس زمانے کے واقعات کے ساتھ اس کو لکھنا مناسب نہ سمجھا۔ عراق اور اہواز جو عرب کے ہمسایہ تھے فتح ہو چکے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے اور فارس کے بیچ میں آتشیں پہاڑ حائل ہوتا تو اچھا تھا۔ لیکن فارس سے ایک اتفاقی طور پر جنگ چھڑ گئی۔ علاء بن الحضرمی 17 ہجری میں بحرین کے عامل مقرر ہوئے۔ وہ بڑی ہمت اور حوصلہ کے آدمی تھے۔ اور چونکہ سعد بن وقاص سے بعض اسباب کی وجہ سے رقابت تھی۔ ہر میدان میں ان سے بڑھ کر قدم مارنا چاہتے تھے۔ سعد نے جب قادسیہ کی لڑائی جیتی تو علاء کو سخت رشک ہوا۔ یہاں تک کہ دربار خلافت سے اجازت تک نہ لی۔ اور فوجیں تیار کر کے دریا کی راہ فارس پر چڑھائی کر دی۔ خلید بن منذر سر لشکر تھے اور جارود بن المعلی اور سوار بن ہمام کے ماتحت الگ الگ فوجیں تھیں۔ اصطخر پہنچ کر جہاز نے لنگر کیا۔ اور فوجیں کنارے پر اتریں۔ یہاں کا حاکم ہیربد تھا۔ وہ ایک انبوہ کثیر لے کر پہنچا اور دریا اتر کر اس پار صفیں قائم کیں کہ مسلمان جہاز تک نہ پہنچ پائیں۔ اگرچہ مسلمانوں کی جمعیت کم تھی۔ اور جہاز بھی گویا دشمن کے قبضے میں آ گئے تھے۔ لیکن سپہ سالار فوج کی ثابت قدمی میں فرق نہ آیا۔ بڑے جوش کے ساتھ مقابلہ کو بڑھے اور فوج کو للکارا کہ مسلمانو! بے دل نہ ہونا۔ دشمن نے ہمارے جہازوں کو چھیننا چاہا ہے۔ لیکن خدا نے چاہا تو جہاز کے ساتھ دشمن کا ملک بھی ہمارا ہے۔ خلید اور جارود بڑی جانبازی سے رجز پڑھ پڑھ کر لڑے اور ہزاروں کو تہ تیغ کیا۔ جلید کا رجزیہ تھا : یاآل عبدالقیس للنزاع قدحفل الامداد بالجراع وکلھم فی سنن المصاع بحسن ضرب القوم بالقطاع