الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس زمانے تک کافرہ عورتوں کو عقد نکاح میں رکھنا جائز تھا۔ لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی " ولا تمسکو ھن بعصم الکوافر" تو یہ امر ممنوع ہو گیا۔ اس بناء پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی دونوں بیویوں کو جو کافرہ تھیں طلاق دے دی۔ ان میں سے ایک کا نام قریبہ اور دوسری کا ام کلثوم بنت جرول تھا۔ ان دونوں کو طلاق دینے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جمیلہ سے جو ثابت بن ابی الا جلح کی بیٹی تھیں نکاح کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزند عاصم انہی کے بطن سے تھے۔ (طبری واقعات 6ھ)۔ اسی سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سلاطین اور والیان ممالک کے نام دعوت اسلام کے خطوط بھیجے۔ جنگ خیبر 7 ہجری (639 عیسوی) 7 ہجری میں خیبر کا مشہور معرکہ پیش آیا۔ اوپر تم پڑھ آئے ہو کہ قبیلہ بنو نضیر کے یہودی جو مدینہ منورہ سے نکالے گئے تھے خیبر میں جا کر آباد ہوئے۔ انہی میں سے سلام و کنانہ وغیرہ نے 5 ہجری میں قریش کو جا کر بھڑکایا۔ اور ان کو مدینہ پر چڑھا لائے۔ اس تدبیر میں اگرچہ ان کو ناکامی ہوئی۔ لیکن انتقام کے خیال سے وہ باز نہ آئے۔ اور اس کی تدبیریں کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ 6 ہجری میں قبیلہ بنو سعد نے ان کی اعانت پر آمادگی ظاہر کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر معلوم ہوئی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیجا۔ بنو سعد بھاگ گئے۔ اور پانچ سو اونٹ غنیمت میں ہاتھ آئے۔ (مواہب لگنیہ وزر قانی زکر سریہ)۔ پھر قبیلہ عظفان کو آمادہ کیا، چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خیبر کی طرف بڑھے تو سب سے پہلے اسی قبیلہ نے سد راہ ہونا چاہا۔ ان حالات کے لحاظ سے ضروری تھا کہ یہودیوں کا زور توڑ دیا جائے ورنہ مسلمان ان کے خطرے سے مطمئن نہیں ہو سکتے تھے۔ غرض 7 ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے چودہ سو پیدل اور دو سو سواروں کے ساتھ خیبر کا رخ کیا۔ خیبر میں یہودیوں نے بڑے مضبوط قلعے بنا لئے تھے۔ مثلاً حصن ناعم، حصن قموص، حصن صعب و طیح اور سلالم، یہ سب قلعے جلد از جلد فتح ہو گئے۔ لیخ وطیح و سلالم جن پر عرب کا مشہور بہادر مرحب قابض تھا۔ آسانی سے فتح نہیں ہو سکتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سپہ سالار بنا کر بھیجا۔ لیکن وہ ناکام آئے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مامور ہوئے ہوئے۔ وہ برابر دو دن جا کر لڑے۔ لیکن دونوں دن ناکام رہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ کل میں ایسے شخص کو علم دوں گا جو حملہ آور ہو گا۔ اگلے دن تمام اکابر صحابہ علم نبوی کی امید میں بڑے سر و سامان سے ہتھیار سجا سجا کر آئے۔ ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے اور ان کا خود بیان ہے کہ میں نے کبھی اس موقع کے سوا علم بر داری اور افسری کی آرزو نہیں کی، لیکن قضا و قدر نے یہ فخر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے اٹھا رکھا تھا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی کی طرف توجہ نہیں کی۔ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کرعلم ان کو