الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مجلس شوریٰ کے ارکان اور اس کے انعقاد کا طریقہ مجلس شوریٰ میں ہمیشہ لازمی طور پر ان دونوں گروہ کے ارکان شریک ہوتے تھے۔ انصار بھی دو قبیلوں میں منقسم تھے۔ اوس و خزرج۔ چنانچہ ان دونوں خاندانوں کا مجلس شوریٰ میں شریک ہونا ضروری تھا۔ مجلس شوریٰ کے تمام ارکان کے نام اگرچہ ہم نہیں بتا سکتے ، تاہم اس قدر معلوم ہے کہ حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبد الرحمٰن بن عوف، حضرت معاذ بن جبل، ابی بن کعب اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم شامل تھے۔ (کنز العمال حوالہ طبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ 134 مطبوعہ حیدر آباد)۔ مجلس کے انعقاد کا یہ طریقہ تھا کہ پہلے ایک منادی اعلان کرتا تھا کہ الصلوٰۃ جامعہ یعنی سب لوگ نماز کے لیے جمع ہو جائیں۔ جب لوگ جمع ہو جاتے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد نبوی میں جا کر دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔ نماز کے بعد منبر پر چڑھ کر خطبہ دیتے تھے اور بحث طلب امر پیش کیا جاتا تھا۔ (تاریخ طری صفحہ 2574)۔ مجلس شوریٰ کے جلسے معمولی اور روزمرہ کے کاروبار میں اس مجلس کے فیصلے کافی سمجھے جاتے تھے لیکن جب کوئی امر اہم پیش آتا تھا تو مہاجرین اور انصار کا اجلاس عام ہوتا تھا اور سب کے اتفاق سے وہ امر طے پایا جاتا تھا۔ مثلاً عراق و شام کے فتح ہونے پر جب بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اصرار کیا کہ تمام مفتوحہ مقامات فوج کی جاگیر میں دے دیئے جائیں تو بہت بڑی مجلس منعقد ہوئی۔ جس میں تمام قدمائے مہاجرین اور انصار میں سے عام لوگوں کے علاوہ دس بڑے سردار جو تمام قوم میں ممتاز تھے اور جن میں پانچ شخص قبیلہ اوس اور پانچ قبیلہ خزرج کے تھے ، شریک ہوئے۔ کئی دن تک مجلس کے جلسے رہے اور نہایت آزادی و بیباکی سے لوگوں نے تقریریں کیں۔ اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو تقریر (تمام تفصیل کتاب الخراج قاضی ابو یوسف صفحہ 14 تا 15 میں ہے۔ ) کی اس کے جستہ جستہ فقرے ہم اس لحاظ سے نقل کرتے ہیں کہ اس سے منصب خلافت کی حقیقت اور خلیفہ وقت کے اختیارات کا اندازہ ہوتا ہے۔ " الی لم از عجکم الا لان نشر کوافی امانتی فیما حملت من امور کم فانی واحد کا حد کم۔ ولست اریدان یتبعوا اھذا الذی ہوای۔ " 21 ہجری میں جب نہاوند کا سخت معرکہ پیش آیا اور عجمیوں نے اس سر و سامان سے تیاری کی کہ لوگوں کے نزدیک خود خلیفہ وقت کا اس مہم پر جانا ضروری ٹھہرا تو بہت بڑی مجلس شوریٰ منعقد ہوئی۔ حضرت عثمان، طلحہ بن عبید اللہ، زبیر بن العوام، عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہم وغیرہ نے باری باری کھڑے ہو کر تقریریں کیں۔ اور کہا کہ آپ کا خود موقع