الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
" ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا " اگر ایسا ہی ہے تو تنخواہیں بیش مقرر کرو کہ لوگ خیانت کی طرف مائل نہ ہونے پائیں۔ (کتاب الخراج صفحہ 64)۔ غرض حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کی رائے و مشورت سے نہایت دیانتدار اور قابل لوگ انتخاب کئے اور ان کو ملکی خدمتیں شپرد کیں۔ عہدیداروں کے مقرر کرنے کے لیے مجلس شوریٰ اہم خدمات کے لیے مجلس شوریٰ کے عام اجلاس میں انتخاب ہوتا تھا اور جو شخص تمام ارکان مجلس کی طرف سے انتخاب کیا جاتا تھا۔ وہ اس خدمت پر مامور ہوتا تھا۔ چنانچہ عثمان بن حنیف کا تقرر اسی طریقے سے ہوا تھا۔ بعض اوقات صوبے یا ضلعے کے لوگوں کو حکم بھیجتے تھے کہ جو شخص تمام لوگوں سے زیادہ قابل ہو اس کا انتخاب کر کے بھیجو۔ چنانچہ انہی منتخب لوگوں کو وہاں کا عامل مقرر کرتے تھے۔ عثمان بن فرقد، معن بن یزید، حجاج بن علاط اسی قاعدے کے موافق کئے گئے تھے۔ ہم اس کی تفصیل اوپر لکھ آئے ہیں۔ تنخواہ کا معاملہ ایک دقت یہ تھی کہ لوگ کسی خدمت کے معاوضے میں تنخواہ لینا پسند نہیں کرتے تھے اور اس کو زہد و تقویٰ کے خلاف سمجھتے تھے۔ بعینہ اسی طرح جس طرح آج کل کے مقدس واعظوں کو اگر کہا جائے کہ وہ باقاعدہ اپنی خدمتوں کو انجام دیں اور مشاہرہ لیں۔ تو ان کو نہایت ناگوار ہو گا۔ لیکن نذر و نیاز کے نام سے جو رقمیں ملتی ہیں اس سے ان کو احتراز نہیں ہوتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں بھی بہت سے لوگ اسی غلطی میں مبتلا تھے۔ لیکن یہ امر تمدن اور اصول انتظام کے خلاف تھا۔ اس لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑی کوشش سے اس غلطی کو رفع کیا اور تنخواہیں مقرر کیں۔ ایک موقع پر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو مشہور صحابی اور سپہ سالار تھے حق الخدمت لینے سے انکار کیا۔ (طبری صفحہ 2747 اسد الغابہ (تذکرہ حذیفہ بن الیمان) سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں۔ کان عمر اذا استعمل عاملا کتب عھدۃ قد بعثت فلانا وامرتہ بکذا فلما قدم المدائین استقبلہ الدھاتین)۔ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑی مشکل سے ان کو راضی کیا۔ حکیم بن حزام نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بار بار اصرار پر بھی کبھی وظیفہ یا روزینہ لینا گوارہ نہ کیا۔ (کنز العمال جلد 3 صفحہ 322)۔ عاملوں کے فرامین میں ان کے فرائض کی تفصیل