الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یرموک 5 رجب 15 ہجری (636 عیسوی) رومی جو شکست کھا کھا کر دمشق و حمص وغیرہ سے نکلے تھے۔ انطاکیہ پہنچے۔ ہرقل سے فریاد کی کہ عرب نے تمام شام کو پامالکر دیا۔ ہرقل نے ان میں سے چند ہوشیار اور معزز آدمیوں کو دربار میں طلب کیا اور کہا کہ " عرب تم سے زور میں جمعیت میں، ساز و سامان میں کم ہیں پھر تم ان کے مقابلے میں کیوں نہیں ٹھہر سکتے۔ " اس پر سب نے سر جھکا لیا۔ اور کسی نے کچھ جواب نہ دیا۔ لیکن ایک تجربہ کار بڈھے نے عرض کی کہ " عرب کے اخلاق ہمارے اخلاق سے اچھے ہیں۔ وہ رات کو عبادت کرتے ہیں، دن کو روزے رکھتے ہیں، کسی پر ظلم نہیں کرتے۔ آپس میں ایک سے ایک برابری کے ساتھ ملتا ہے۔ ہمارا یہ حال ہے کہ شراب پیتے ہیں، بد کاریاں کرتے ہیں، اقرار کی پابندی نہیں کرتے ، اوروں پر ظلم کرتے ہیں۔ اس کا یہ اثر ہے کہ ان کے کام میں جوش اور استقلال پایا جاتا ہے۔ اور ہمارا جو کام ہوتا ہے ہمت اور استقلال سے خال ہوتا ہے۔ قیصر درحقیقت شام سے نکل جانے کا ارادہ کر چکا تھا۔ لیکن ہر شہر اور ہر ضلع سے جوق در جوق عیسائی فریادی چلے آتے تھے۔ قیصر کو سخت غیرت آئی اور نہایت جوش کے ساتھ آمادہ ہوا کہ شاہنشاہی کا پورا زور عرب کے مقابلے میں صرف کر دیا جائے۔ روم، قسطنطنیہ، جزیرہ، آرمینیہ ہر جگہ احکام بھیجے کہ تمام فوجیں پائے تخت انطاکیہ میں ایک تاریخ معین تک حاضر ہو جائیں۔ تمام اضلاع کے افسروں کو لکھ بھیجا کہ جس قدر آدمی جہاں سے مہیا ہو سکیں روانہ کئے جائیں۔ ان احکام کا پہنچنا تھا کہ فوجوں کا ایک طوفان امنڈ آیا۔ انطاکیہ کے چاروں طرف جہاں تک نگاہ جاتی تھی فوجوں کا ٹڈی دل پھیلا ہوا تھا۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو مقامات فتح کئے تھے۔ وہاں کے امراء اور رئیس ان کے عدل و انصاف کے اس قدر گرویدہ ہو گئے تھے کہ باوجود مخالف مذہب کے خود اپنی طرف سے دشمن کی خبر لانے کے لیے جاسوس مقرر کر رکھے تھے۔ چنانچہ ان کے ذریعے سے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تمام واقعات کی اطلاع ہوئی۔ انہوں نے تمام افسروں کو جمع کیا۔ اور کھڑے ہو کر ایک پر اثر تقریر کی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانوں! خدا نے تم کو بار بار جانچا اور تم اس کی جانچ پر پورے اترے۔ چنانچہ اس کے صلہ میں خدا نے ہمیشہ تم کو منصور رکھا۔ اب تمہارا دشمن اس ساز و سامان سے تمہارے مقابلہ کے لیے چلا ہے کہ زمین کانپ اٹھی ہے۔ اب بتاؤ کیا صلاح ہے ؟ یزید بن ابی سفیان (معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی) کھڑے ہوئے اور کہا کہ " میری رائے ہے کہ عورتوں اور بچوں کو شہر میں رہنے دیں۔ اور ہم خود شہر کے باہر لشکر آرا ہوں۔ اس کے ساتھ خالد اور عمرو بن العاص کو خط لکھا جائے کہ دمشق اور فلسطین سے چل کر مدد کو آئیں۔ " شرجیل بن حسنہ نے کہا کہ اس موقع پر ہر شخص کو آزادانہ رائے دینی چاہیے۔ یزید نے جو رائے دی بلا شبہ خیر خواہی سے دی ہے لیکن میں اس کا مخالف ہوں۔ شہر والے تمام عیسائی ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ تعصب سے ہمارے اہل و عیال کو پکڑ کر قیصر کے حوالے کر دیں۔ یا خود مار ڈالیں۔ حضرت ابو عبیدہ نے کہا کہ اس کی تدبیر یہ ہے کہ ہم عیسائیوں کو شہر سے نکال دیں۔ شرجیل نے اٹھ کر کہا اے امیر! تجھ کو ہر گز یہ حق حاصل نہیں۔ ہم نے ان عیسائیوں کو اس شرط پر امن دیا ہے کہ وہ شہر میں اطمینان سے رہیں۔ اس لئے نقض عہد کیونکر ہو سکتا ہے۔ حضرت ابو عبیدہ نے اپنی غلطی تسلیم کی لیکن یہ بحث طے نہیں ہوئی کہ آخر کیا کیا