الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
چونکہ یہاں اکثر افسران فوج اور عمال جمع ہو گئے تھے۔ کئی دن تک قیام کیا اور ضروری احکام جاری کئے۔ ایک دن بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ (رسول اللہ کے مؤذن) نے آ کر شکایت کی کہ امیر المومنین ہمارے افسر پرند کا گوشت اور میدہ کی روٹیاں کھاتے ہیں۔ لیکن عام مسلمانوں کو معمولی کھانا بھی نصیب نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے افسران کی طرف دیکھا، انہوں نے عرض کی کہ اس ملک میں تمام چیزیں ارزاں ہیں۔ جتنی قیمت میں حجاز میں روٹی اور کھجور ملتی ہے۔ یہاں اسی قیمت پر پرندہ کا گوشت اور میدہ ملتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ افسروں کو مجبور نہ کر سکے ، لیکن حکم دیا کہ مال غنیمت اور تنخواہ کے علاوہ سپاہی کا کھانا بھی مقرر کر دیا جائے۔ ایک دن نماز کے وقت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے درخواست کی کہ آج اذان دو۔ بلال نے کہا میں عزم کر چکا تھا کہ رسول اللہ کے بعد کسی کے لیے اذان نہ دوں گا لیکن آج (اور صرف آج) آپ کا ارشاد بجا لاؤں گا۔ اذان دینی شروع کی تو تمام صحابہ کو رسول اللہ کا عہد مبارک یاد آ گیا۔ اور رقت طاری ہو گئی۔ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور معاذ بن جبل روتے روتے بیتاب ہو گئے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہچکی لگ گئ۔ دیر تک یہ اثر رہا۔ ایک دن مسجد اقصیٰ میں گئے اور کعب بن احبار کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ نماز کہاں پڑھی جائے۔ مسجد اقصیٰ میں ایک پتھر ہے جو انبیاء سابقین کی یادگار ہے۔ اس کو صخرہ کہتے ہیں۔ اور یہودی اس کی اسی طرح تعظیم کرتے ہیں جس طرح مسلمان حجر اسود کی، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ " تم میں اب تک یہودیت کا اثر باقی ہے۔ اور اسی کا اثر تھا کہ تم نے صخرہ کے پاس آ کر جوتی اتار دی۔ " اس واقعہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کو جو طرز عمل اس قسم کی یادگاروں کی نسبت تھا، ظاہر ہوتا ہے۔ اس موقع پر ہماری اس کتاب کے دوسرے حصہ کے صفحہ کو بھی ملاحظہ کرنا چاہیے۔ حمص پر عیسائیوں کی دوبارہ کوشش 17ہجری (638 عیسوی) یہ معرکہ اس لحاظ سے یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس سے جزیرہ اور آرمینیہ کی فتوحات کا موقع پیدا ہوا تھا۔ ایران اور روم کی مہمیں جن اسباب سے پیش آئیں۔ وہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔ لیکن اس وقت تک آرمینیہ پر لشکر کشی کے لیے کوئی خاص سبب نہیں پیدا ہوا تھا۔ اسلامی فتوحات چونکہ روز بروز وسیع ہوتی جاتی تھیں اور حکومت اسلام کے حدود برابر بڑھتے جاتے تھے۔ ہمسایہ سلطنتوں کو خود بخود خوف پیدا ہوا کہ ایک دن ہماری باری بھی آتی ہے۔ چنانچہ ادھر جزیرہ والوں نے قیصر کو لکھا کہ نئے سرے سے ہمت کیجیئے ہم ساتھ دینے کو موجود ہیں۔ چنانچہ قیصر نے ایک فوج کثیر حمص کو روانہ کی۔ ادھر جزیرہ والے