الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس بناء پر عرب میں جب تمدن کا آغاز ہوا تو سب سے پہلے تاریخی تصنیفات وجود میں آئیں۔ اسلام سے بہت پہلے بادشاہ جبرۃ نے تاریخی واقعات قلمبند کرائے اور وہ مدت تک محفوظ رہے۔ چنانچہ ابن ہشام نے کتاب الجیجان میں تصریح کی ہے کہ میں نے ان تالیفات سے فائدہ اٹھایا۔ اسلام کے عہد میں زبانی روایتوں کا ذخیرہ ابتداء ہی میں پیدا ہو گیا تھا۔ لیکن چونکہ تالیف و تصنیف کا سلسلہ عموماً ایک مدت کے بعد قائم ہوا۔ اس لئے کوئی خاص کتاب اس فن میں نہیں لکھی گئی۔ لیکن جب تالیف کا سلسلہ شروع ہوا تو سب سے پہلی کتاب جو لکھی گئی تاریخ کے فن میں تھی۔ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ المتوفی 60 ہجری کے زمانے میں عبیدہ بن شربہ ایک شخص تھا جس نے جاہلیت کا زمانہ دیکھا اور اس کو عرب و عجم کے اکثر معرکے یاد تھے ، امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو صنعاء سے بلایا اور کاتب اور محرر متعین کئے کہ جو کچھ وہ بیان کرتا جائے قلم بند کرتے جائیں۔ علامہ ابن الندیم نے کتاب الفبرست میں اس کی متعدد تالیفات کا ذکر کیا ہے۔ جن میں سے ایک کتاب کا نام کتاب الملوک والاخبار الماضیین لکھا ہے ، غالباً یہ وہی کتاب ہے جس کا مسودہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم سے تیار ہوا تھا۔ عبیدہ کے بعد عوانہ بن الحکم المتوفی 47 ھ کا نام ذکر کرنے کے قابل ہے۔ جو اخبار و انساب کا بڑا ماہر تھا۔ اس نے عام تاریخ کے علاوہ خاص بنو امیہ اور امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات میں ایک کتاب لکھی۔ 117 ہجری میں ہشام بن عبد الملک کے حکم سے عجم کی نہایت مفصل تاریخ کا ترجمہ پہلوی سے عربی میں کیا گیا۔ اور یہ پہلی کتا ب تھی جو غیر زبان سے عربی میں ترجمہ کی گئی۔ سیرۃ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں سب سے پہلی تصنیف 143 ہجری میں جب تفسیر، حدیث، فقہ وغیرہ کی تدوین شروع ہوئی تو اور علوم کے ساتھ تاریخ و رجال میں بھی مستقل کتابیں لکھی گئیں۔ چنانچہ محمد بن اسحاق المتوفی 151 ہجری نے منصور عباسی کے لیے خاص سیرۃ نبوی پر ایک کتاب لکھی جو آج بھی موجود ہے۔ (مغازی محمد اسحاق کا ایک قلمی نسخہ مکتبہ کوپریلی استنبول میں موجود ہے۔ ) ہمارے مؤرخین کا دعویٰ ہے کہ فن تاریخ کی یہ پہلی کتاب ہے۔ لیکن یہ صحیح ہے کہ اس سے پہلے موسیٰ بن عقبہ المتوفی 141 ہجری نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مغازی قلم بند کئے تھے۔ موسیٰ نہایت ثقہ اور محتاط شخص تھے اور صحابہ کا زمانہ پایا تھا۔ اس لئے ان کی یہ کتاب محدثین کے دائرے میں بھی عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ (مغازی موسیٰ بن عقبہ 1904 عیسوی میں یورپ میں چھپ چکی ہے۔ موسیٰ بن عقبہ کے لئے تہذیب التہذیب و مقدمہ فتح الباری شرح صحیح بخاری دیکھو)۔