الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
چنانچہ ہم ایک ایک جزئی انتظام کو اس موقع پر نہایت تفصیل سے لکھتے ہیں جس سے معلوم ہو گا کہ عرب کے ابتدائے تمدن میں انتظامات فوجی کی اس قدر شاخیں قائم کرنی اور ایک ایک شاخ کا اس حد تک مرتب اور باقاعدہ کرنا اسی شخص کا کام تھا جو فاروق اعظم کا لقب رکھتا تھا۔ اس صیغے میں سب سے مقدم اور اصولی انتظام، ملک کا جنگی حیثیت سے مختلف حصوں میں تقسیم کرنا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ 20 ہجری میں ملکی حیثیت سے ملک کی دو تقسیمیں کیں۔ ملکی اور فوجی، ملکی کا حال دیوانی انتظامات کے ذکر میں گزر چکا ہے۔ فوجی صدر مقامات فوجی حیثیت سے چند بڑے برے فوجی مراکز قرار دیئے جن کا نام جند رکھا (جند کی تحقیقات کے لئے دیکھو فتوح البلدان صفحہ 32۔ مؤرخ یعقوبی نے واقعات 20ھ میں لکھا ہے کہ اس سال حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوجی صدر مقامات قائم کئے۔ لیکن مؤرخ مذکور نے صرف فلسطین، جزیرہ، موصل اور قفسرین کا نام لکھا ہے۔ یہ صریح غلطی ہے )۔ اور یہی اصطلاح آج تک قائم ہے۔ ان کی تفصیل یہ ہے۔ کوفہ، بصرہ، موصل، فسطاط، مصر، دمشق، حمص، اردن، فلسطین۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں فتوحات کی حد اگرچہ بلوچستان کے ڈانڈے سے مل گئی تھی۔ لیکن جو ممالک آئینی ممالک کہے جا سکتے تھے۔ وہ صرف عراق، مصر، جزیرہ اور شام تھے۔ چنانچہ اسی اصول پر فوجی صدر مقامات بھی انہی ممالک میں قائم کئے گئے۔ موصل جزیرہ کا صدر مقام تھا۔ شام کی وسعت کے لحاظ سے وہاں متعدد صدر مقام قائم کرنے ضروری تھے اس لئے دمشق، فلسطین، حمص، اردن چار صدر مقام قرار دیئے۔ فسطاط کی وجہ سے جو اب قاہرہ سے بدل گیا ہے۔ تمام مصر پر اثر پڑتا تھا۔ بصرہ، کوفہ، یہ دو شہر فارس اور خوزستان اور تمام مشرق کی فتوحات کے دروازے تھے۔ ان صدر مقامات میں جو انتظامات فوج کے لئے تھے وہ حسب ذیل تھے۔ فوجی بارکیں فوجوں کے رہنے کے لیے بارکیں تھیں۔ کوفہ، بصرہ، فسطاط، یہ تینوں شہر تو دراصل فوج کے قیام اور بود و باش کے لئے ہی آباد کئے گئے تھے۔ موصل میں عجمیوں کے زمانے کا ایک قلعہ چند گرجے اور معمولی مکانات تھے۔ ہرثمہ بن عرفجہ ازدی (گورنر موصل) نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہدایت کے بموجب داغ بیل ڈال کر اس کو شہر کی صورت میں آباد کیا۔ اور عرب کے مختلف قبیلوں کے لیے جدا جدا محلے بسائے۔