الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن مجید کی جمع و ترتیب میں جو کوششیں کیں یہ مسلم ہے کہ اسلام کی اصل قرآن مجید ہے اور اس سے انکار بھی نہیں ہو سکتا کہ قرآن مجید کا جمع کرنا، ترتیب دینا، صحیح نسخہ لکھوا کر محفوظ کرنا، تمام ممالک میں اس کا رواج دینا، جو کچھ ہوا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اہتمام اور توجہ سے ہوا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد تک قرآن مجید مرتب نہیں ہوا تھا۔ متفرق اجزاء متعدد صحابہ کے پاس تھے وہ بھی کچھ ہڈیوں پر، کچھ کھجور کے پتوں پر، کچھ پتھر کی تختیوں پر لکھا ہوا اور لوگوں کو پورا حفظ یاد بھی نہ تھا۔ کسی کو کوئی سورت یاد تھی کسی کو کوئی۔ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں جب مسیلمہ کذاب سے لڑائی ہوئی تو سینکڑوں صحابہ شہید ہوئے جن میں بہت سے حفاظِ قرآن بھی تھے۔ لڑائی کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جا کر کہا کہ اگر اسی طرح حفاظِ قرآن اٹھتے گئے تو قرآن جاتا رہے گا۔ اس لئے ابھی سے اس کی جمع و ترتیب کی فکر کرنی چاہیے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جو کام رسول اللہ نے نہیں کیا تو میں کیوں کروں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بار بار اس کی مصلحت اور ضرورت بیان کی۔ یہاں تک کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی رائے سے متفق ہو گے۔ صحابہ میں سے وحی لکھنے کا کام سب سے زیادہ زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا تھا۔ چنانچہ وہ طلب کئے گئے اور اس خدمت پر مامور ہوئے کہ جہاں جہاں سے قرآن کی سورتیں یا آیتیں ہاتھ آئیں یکجا کی جائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجمع عام میں اعلان کیا کہ جس نے قرآن کا کوئی حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سیکھا ہو میرے پاس لے کر آئے۔ اس بات کا التزام کیا گیا کہ جو شخص کوئی آیت پیش کرتا تھا اس پر دو شخصوں کی شہادت لی جاتی تھی کہ ہم نے اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں قلمبند کرتے دیکھا تھا۔ غرض اس طرح جب تمام سورتیں جمع ہو گئیں تو چند آدمی مامور ہوئے کہ ان کی نگرانی میں پورا قرآن ایک مجموعہ کی صورت میں لکھا جائے۔ سعید بن العاص بتاتے جاتے تھے اور زید بن ثابت لکھتے جاتے تھے مگر ان لوگوں کو حکم تھا کہ کسی لفظ کے تلفظ و لہجہ میں اختلاف پیدا ہو تو قبیلہ مضر کے لہجہ کے مطابق لکھا جائے کیونکہ قرآن مجید، مضر ہی کی خاص زبان میں اترا ہے۔ (کنز العمال جلد اول صفحہ 279 اور نقان 12)،