الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رومیوں کا اضافہ رومیوں نے اپنے عہد حکومت میں اور تمام قاعدے بحال رکھے لیکن یہ نیا دستور مقرر کیا کہ ہر سال خراج کے علاوہ مصر سے غلہ کی ایک مقدار کثیر پائے تخت قسطنطنیہ کو روانہ کی جاتی تھی اور سلطنت کے ہر صوبے میں فوج کی رسد کے لیے یہیں سے غلہ جاتا تھا۔ جو خراج میں محسوب نہین ہوتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دونوں جابرانہ قاعدے موقوف کر دیئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قدیم طریقے کی اصلاح کی یورپ کے مؤرخوں نے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں بھی یہ رسم جاری رہی۔ چنانچہ قحط کے سال مصر سے مدینہ منورہ کو جو غلہ بھیجا گیا، اسی اصول کے موافق بھیجا گیا۔ لیکن یہ ان کی سخت غلطی اور قیاس بازی ہے۔ بے شبہ عام القحط میں مصر سے غلہ آیا اور پھر یہ ایک رسم قائم ہو کر مدتوں تک جاری رہی۔ لیکن یہ وہی غلہ تھا جو خراج سے وصول ہوتا تھا۔ کوئی نیا خراج یا ٹیکس نہ تھا۔ چنانچہ علامہ بلاذری نے فتوح البلدان میں صاف صاف تصریح کر دی ہے۔ اس بات کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ جب خراج میں صرف نقدی کا طریقہ رہ گیا تو حرمین کے لیے جو غلہ بھیجا جاتا تھا خرید کر بھیجا جاتا تھا۔ چنانچہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد حکومت کی نسبت علامہ مقریزی نے صاف اس کی تصریح کی ہے۔ (فتوح البلدان صفحہ 316)۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہر صوبہ میں فوج کی رسد کے لیے غلے کھیتوں کا بھی انتظام کیا تھا۔ لیکن یہ وہی خراج کا غلہ تھا۔ مصر میں وصول مال گزاری کا طریقہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مال گزاری کے وصول کا طریقہ بھی نہایت نرم کر دیا اور اس لحاظ سے ملک کے دونوں قدیم قاعدوں میں ترمیم کر دی۔ مصر ایک ایسا ملک ہے جس کی پیداوار کا دار و مدار دریائے نیل کی طغیانی پر ہے۔ اور چونکہ اس کی طغیانی کے مدارج میں نہایت تفاوت ہوتا رہتا تھا۔ اس لیے پیداوار کا کوئی خاص اندازہ نہیں ہو سکتا تھا۔ چند سالوں کے اوسط کا حساب اس لیے مفید نہیں تھا کہ جاہل کاشتکار اپنے مصارف کی تقسیم ایسے باقاعدہ طریقے سے نہیں کر سکتے کہ خشک سالی میں اوسط کے حساب سے ان کا کام چل سکے۔