الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تمہید – تاریخ کا عنصر تمدن کے زمانے میں جو علوم و فنون پیدا ہو جاتے ہیں ان میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں جن کا ہیولیٰ پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ تمدن کے زمانے میں وہ ایک موزوں قالب اختیار کر لیتا ہے۔ اور پھر ایک خاص نام یا لقب سے مشہور ہو جاتا ہے۔ مثلاً استدلال اور اثبات مدعا کے طریقے ہمیشہ سے موجود تھے۔ اور عام و خاص سب ان سے کام لیتے تھے۔ لیکن جب ارسطو نے ان جزئیات کو ایک خاص وضع سے ترتیب دیا تو اس کا نام منطق ہو گیا اور وہ ایک مستقل فن بن گیا۔ تاریخ و تذکرہ بھی اسی قسم کا فن ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں انسانوں کا کوئی گروہ موجود تھا، تاریخ و تذکرے بھی ساتھ ساتھ تھے۔ کیونکہ فخر و ترجیح کے موقعوں پر لوگ اپنے اسلاف کے کارنامے خواہ مخواہ بیان کرتے تھے۔ تفریح اور گرمی صحبت کے لیے مجالس میں پچھلی لڑائیوں اور معرکوں کا ذکر ضرور کیا جاتا تھا۔ باپ دادا کی تقلید کے لیے پرانی عادات و رسوم کی یادگاریں خواہ مخواہ قائم رکھی جاتی تھیں۔ اور یہی چیزیں تاریخ و تذکرہ کا سرمایہ ہیں۔ اس بناء پر عرب، عجم، تاتار، ہندی، افغانی، مصری، یونانی، غرض دنیا کی تمام قومیں فن تاریخ کی قابلیت میں ہمسری کا دعویٰ کر سکتی ہیں۔ عرب کی خصوصیت لیکن اس عموم میں عرب کو ایک خصوصیت خاص حاصل تھی۔ عرب میں خاص خاص باتیں ایسی پائی جاتی تھیں جن کو تاریخی سلسلے سے تعلق تھا۔ اور جو اور قوموں میں نہیں پائی جاتی تھیں۔ مثلاً انساب کا چرچا جس کی یہ کیفیت تھی کہ بچہ بچہ اپنے آبا و اجداد کے نام اور ان کے رشتے ناطے دس دس بارہ بارہ پشتوں تک محفوظ رکھتا تھا۔ یہاں تک کہ انسانوں سے گزر کر گھوڑوں اور اونٹوں کے نسب نامے محفوظ رکھے جاتے تھے۔ یالیام العرب جس کی بدولت " عکاظ " کے سالانہ میلے میں قومی کارناموں کی روایتیں، سلسلہ بسلسلہ ہزاروں لاکھوں آدمیوں تک پہنچ جاتی تھیں یا شاعری جس کا یہ حال تھا کہ اونٹ چرانے والے بدو جن کو لکھنے پڑھنے سے کچھ سروکار نہ تھا۔ اپنی زبان آوری کے سامنے تمام عالم ہیچ سمجھتے تھے۔ اور درحقیقت جس سادگی اور اصلیت کے ساتھ وہ واقعات اور جذبات کی تصویر کھینچ سکتے تھے دنیا میں کسی قوم کو یہ بات کبھی نصیب نہیں ہوئی۔ عرب میں تاریخ کی ابتداء