الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فیصلہ کر دیا تھا، اس طرح ذلیل کیا جا رہا ہے۔ اور مطلق دم نہیں مارتا۔ اس واقعہ سے ایک تو خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نیک نفسی اور حق پرستی کی شہادت ملتی ہے اور دوسری طرف حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سطوت و جلال کا اندازہ ہوتا ہے۔ خالد نے حمص پہنچ کر اپنی معزولی کے متعلق ایک تقریر کی۔ تقریر میں یہ بھی کہا کہ " امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ کو شام کا افسر مقرر کیا۔ اور جب میں تمام شام کو زیر کر لیا تو مجھ کو معزول کر دیا۔ " اس فقرے پر ایک سپاہی اٹھ کھڑا ہوا اور کہا کہ اے سردار چپ رہ! ان باتوں سے فتنہ پیدا ہو سکتا ہے۔ " خالد نے کہا " ہاں! لیکن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہوتے ہوئے فتنہ کا کیا احتمال ہے (دیکھو کتاب الخراج ابو یوسف 178 تاریخ طبری 7)۔ خالد مدینہ آئے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا : کہ عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) خدا کی قسم تم میرے معاملہ میں ناانصافی کرتے ہو۔ " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ " تمہارے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی۔ " خالد نے کہا کہ مال غنیمت سے۔ " اور یہ کہہ کر کہا کہ " ساتھ ہزار سے جس قدر زیادہ رقم نکلے وہ میں اپ کے حوالہ کرتا ہوں۔ " چنانچہ بیس ہزار روپے زیادہ نکلے اور وہ بیت المال میں داخل کر دیئے گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ " خالد واللہ تم مجھ کو محبوب بھی ہو، اور میں تمہاری عزت بھی کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر تمام عمالان ملکی کو لکھ بھیجا کہ میں نے خالد کو ناراضی سے یا خیانت کی بناء پر موقوف نہیں کیا۔ لیکن چونکہ میں دیکھتا تھا کہ لوگ اس کے مفتوں ہوتے جاتے ہیں۔ اس لئے میں نے ان کو معزول کرنا مناسب سمجھا تا کہ لوگ یہ سمجھ لیں کہ جو کچھ کرتا ہے۔ خدا کرتا ہے۔ " (طبری 8)۔ ان واقعات سے ایک نکتہ بین شخص باآسانی یہ سمجھ سکتا ہے کہ خالد کی معزولی کے کیا اسباب تھے۔ اور اس میں کیا مصلحتیں تھیں۔ عمواس کی وبا 18 ہجری (639 عیسوی) اس سال شام و مصر و عراق میں سخت وبا پھیلی اور اسلام کی بڑی بڑی یادگاریں خاک میں چھپ گئیں۔ وبا کا آغاز 17 ہجری کے اخیر میں ہوا اور کئی مہینے تک نہایت شدت رہی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اول جب خبر پہنچی تو اس کی تدبیر اور انتظام کے لیے خود روانہ ہوئے۔ سرغ (ایک مقام کا نام) پہنچ کر ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ سے جو ان کے استقبال کو آئے تھے ، معلوم ہوا کہ بیماری کی شدت بڑھتی جاتی ہے۔ مہاجرین اولین اور انصار کو بلایا۔ اور رائے طلب کی۔ مختلف لوگوں نے مختلف رائیں دیں۔ لیکن پھر سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ آپ کا یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں۔ " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو