الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
محکمہ آبپاشی تالاب تیار کرانے ، پانی کی تقسیم کرنے کے دہانے بنانے ، نہروں کے شعبے نکالنے اور اس قسم کے کاموں کا ایک بڑا محکمہ قائم کیا۔ علامہ مقریزی نے لکھا ہے کہ خاص مصر میں ایک لاکھ بیس ہزار مزدور روزانہ سال بھر اس کام میں لگے رہتے تھے اور یہ تمام مصارف بیت المال سے ادا کئے جاتے تھے۔ (مقریزی صفحہ 76 جلد اول)۔ خوزستان اور اہواز کے اضلاع میں جزر بن معاویہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اجازت سے بہت سے نہریں کھدوائیں۔ جن کی وجہ سے بہت سی افتادہ زمینیں آباد ہو گئیں۔ اسی طرح اور سینکڑوں نہریں تیار ہوئیں۔ جس کا پتہ جستہ جستہ تاریخوں میں ملتا ہے۔ خراجی اور عشری نوعیت قبضہ کے لحاظ سے زمین کی ایک اور تقسیم۔ یعنی خراجی اور عشری۔ خراجی کا بیان اوپر گزر چکا ہے۔ عشری اس زمین کا نام تھا جو مسلمانوں کے قبضے میں ہوتی تھی۔ اور جس کے اقسام حسب ذیل تھے : 1 – عرب کی زمین جس کے قابضین اوائل اسلام میں مسلمان ہو گئے تھے۔ مثلاً مدینہ منورہ وغیرہ۔ 2 – جو زمین کسی ذمی کے قبضے سے نکل کر مسلمانوں کے قبضے میں آتی تھی، مثلاً لاوارث مر گیا، یا مفرور ہو گیا، یا بغاوت کی یا استغفیٰ دے دیا۔ 3 – جو افتادہ زمین کسی حیثیت سے کسی کی ملک نہیں ہوتی تھی۔ اور اس کو کوئی مسلمان آباد کر لیتا تھا۔ ان اقسام کی تمام زمینیں عشری کہلاتی تھیں اور چونکہ مسلمانوں سے جو کچھ لیا جاتا تھا وہ زکوٰۃ کی مد میں داخل تھا، اس لیے ان زمینوں پر بجائے خراج کے زکوٰۃ مقرر تھی جس کی مقدار اصل پیداوار کا دسواں حصہ ہوتا تھا۔ یہ شرح خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مقرر فرمائی تھی۔ اور وہی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں بھی قائم رہی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اتنا کیا کہ ایران وغیرہ کی جو زمینیں مسلمانوں کے قبضے میں آئیں اگر وہ ذمیوں کی قدیم نہروں یا کنوؤں سے سیراب ہوتی تھیں تو ان پر خراج مقرر کیا۔ چنانچہ اس قسم کی زمینیں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ و خباب وغیرہ کے قبضے میں تھیں اور ان سے خراج لیا جاتا تھا۔ اور اگر خود مسلمان نئی نہر یا کنواں کھود کر اس کی آبپاشی کرتے تھے تو اس پر رعایتہً عشرہ مقرر کیا جاتا تھا۔ (کتاب الخراج صفحہ 35 تا 37)۔