الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خطاب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد قریش کے ممتاز آدمیوں میں سے تھے (کتاب المعارف ابن قتیبہ)۔ قبیلہ عدی اور بنی عبد الشمس میں مدت سے عداوت چلی آتی تھی اور چونکہ بنو میں خطاب بھی شامل تھے ، مجبور ہو کر سہم کے دامن میں پناہ لی، اس پر بھی مخالفوں نے لڑائی کی دھمکی دی تو خطاب نے یہ اشعار کہے : ابو عد لی ابو عمر و دولی رجال لا ینھنھا الوعید رجال من بنی سھم بن عمرو الی ابیا تھم باوی الطرید کل آٹھ شعر ہیں اور علامہ ارزقی نے تاریخ مکہ میں ان کو بتمامہا نقل کیا ہے۔ عدی کا تمام خاندان مکہ معظمہ میں مقام صفا میں سکونت رکھتا تھا۔ لیکن جب انہوں نے بنو سہم سے تعلق پیدا کیا تو مکانات بھی انہی کے ہاتھ بیچ ڈالے۔ لیکن خطاب کے متعدد مکانات صفا میں باقی رہے جن میں سے ایک مکان حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وراثت میں پہنچا تھا۔ یہ مکان صفا اور مروہ کے بیچ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں ڈھا کر حاجیوں کے اترنے کے لیے میدان بنا دیا۔ لیکن اس سے متعلق بعض دکانیں مدت تک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان کے قبضے میں رہیں۔ (تاریخ مکہ للارزقی۔ ذکر رباع بن بنی عدی بن کعب)۔ خطاب نے متعدد شادیاں اونچے گھرانوں میں کیں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ماں کا نام خنتمہ تھا، جو ابن ہشام بن المغیرۃ کی بیٹی تھیں، مغیرۃ اس رتبہ کے آدمی تھے کہ جب قریش کسی سے لڑنے کے لئے جاتے تھے تو فوج کا اہتمام انہی سے متعلق ہوتا تھا۔ اسی مناسبت سے ان کو صاحب الاعنہ کا لقب حاصل تھا۔ حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہی کے پوتے تھے۔ مغیرہ کے بیٹے ہشام بھی جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نانا تھے۔ ایک ممتاز آدمی تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشہور روایات کے مطابق ہجرت نبوی سے 40 برس قبل پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت اور بچپن کے حالات بالکل نامعلوم ہیں۔ حافظ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں عمرو بن عاص کی زبانی ایک روایت نقل کی ہے۔ کہ میں چند احباب کے ساتھ ایک جلسہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ دفعتہً غُل اٹھا۔ دریافت سے معلوم ہوا کہ خطاب کے گھر بیٹا ہوا ہے۔ اس سے قیاس ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیدا ہونے پر غیر معمولی خوشی کی گئی تھی۔ ان کے سن رشد کے حالات بھی بہت کم معلوم ہیں اور کیونکر معلوم ہوتے۔ اس وقت کس کو خیال تھا کہ یہ جوان آگے چل کر فاروق اعظم ہونے والا ہے۔ تاہم نہایت تشخیص اور تلاش سے کچھ کچھ حالات بہم پہنچے جن کا نقل کرنا ناموزوں نہ ہو گا۔