الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ذمیوں کی عزت کا خیال ذمیوں کی عزت و آبرو کا اسی قدر استحفاظ تھا جس قدر مسلمان کی عزت و ناموس کی، ان کی نسبت کسی قسم کی تحقیر کا لفظ استعمال کرنا نہایت ناپسندیدہ خیال کیا جاتا تھا۔ عمیر بن سعد جو حمص کے حاکم تھے اور زہد و تقدس و ترک دنیا میں تمام عہدہ داران خلافت میں کوئی ان کا ہمسر نہ تھا۔ ایک دفعہ ان کے منہ سے ایک ذمی کی شان میں یہ لفظ نکل گیا۔ اخزاک اللہ یعنی خدا تجھ کو رسوا کرے۔ اس پر ان کو اس قدر ندامت اور تاسف ہو کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور کہا کہ اس نوکری کی بدولت مجھ سے یہ حرکت صادر ہوئی۔ (دیکھو ازالۃ الخفاٗ صفحہ 203)۔ سازش اور بغاوت کی حالت میں ذمیوں کے ساتھ سلوک ایک خاص بات جو سب سے بڑھ کر لحاظ کے قابل ہے یہ ہے کہ ذمیوں نے اگر کبھی سازش یا بغاوت کی تب بھی ان کے ساتھ مراعات کو ملحوظ رکھا گیا۔ آج کل حکومتوں کو تہذیب و ترقی کا دعوی ہے۔ رعایا کے ساتھ ان کی تمام عنایت اسی وقت تک ہے جب تک ان کی طرف سے کوئی پولیٹیکل شبہ پیدا نہ ہو۔ ورنہ دفعتاً وہ تمام مہربانی غضب اور قہر میں بدل جاتی ہے اور ایسا خونخوار اور پُرغیظ انتقام لیا جاتا ہے کہ وحشی قومیں بھی اس سے کچھ زیادہ نہیں کر سکتیں۔ برخلاف اس کے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قدم کسی حالت میں جادہ انصاف سے ذرا نہیں ہٹا۔ شام کی آخری سرحد پر ایک شہر تھا جس کا نام عربسوس تھا اور جس کی سرحد ایشیائے کوچک سے ملی ہوئی تھی۔ شام جب فتح ہوا تو یہ شہر بھی فتح ہوا اور صلح کا معاہدہ ہو گیا۔ لیکن یہاں کے لوگ درپردہ رومیوں سے سازش رکھتے تھے اور ادھر کی خبریں ان کو پہنچاتے رہتے تھے۔ عمیر بن سعد وہاں کے حاکم نے حضرت عمر کو اس کی اطلاع دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی اس کمینہ حرکت کا جو انتقام لیا وہ یہ تھا کہ عمیر بن سعد کو لکھا کہ جس قدر ان کی جائیداد، زمین، مویشی اور اسباب ہے سب شمار کر کے ایک ایک چیز کی دوچند قیمت دے دو۔ اور ان سے کہو اور کہیں چلے جاؤ۔ اگر اس پر راضی نہ ہوں تو ان کو ایک برس کی مہلت دو۔ اور اس کے بعد جلاوطن کر دو۔ چنانچہ جب وہ اپنی شرارت سے باز نہ آنے تو اس حکم کی تعمیل کی گئی۔ (فتوح البلدان بلاذری صفحہ 157)۔ کیا آج کل کوئی قوم اس درگزر اور عفو و مسامحت کی کوئی نظیر دکھلا سکتی ہے ؟ ذمیوں کے ساتھ جو لطف و مراعات کی گئی تھی اس کا ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ ذمیوں نے ہر موقع پر اپنی ہم مذہب سلطنتوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ ذمی ہی تھے جو مسلمانوں کے لیے رسد بہم پہنچاتے تھے۔ لشکر گاہ میں مینا بازار لگاتے تھے۔ اپنے اہتمام اور صرف سے سڑک اور پل تیار کراتے تھے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں کے لئے جاسوسی اور خبر رسانی کرتے تھے یعنی دشمنوں کے ہر قسم کے راز مسلمانوں سے آ کر کہتے تھے۔ حالانکہ یہ دشمن انہی کے ہم مذہب عیسائی یا پارسی تھے۔ ذمیوں کو مسلمانوں کے حسن سلوک کے وجہ سے جو اخلاص پیدا ہو گیا تھا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ جنگ یرموک کے پیش آنے کے وقت جب مسلمان شہر حمص سے