الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کتاب الاوائل میں لکھا ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے جس قاضی نے خلاف انصاف عمل کیا وہ بلال بن ابی برد تھے۔ (یہ بنو امیہ کے زمانے میں تھے )۔ آبادی کے لحاظ سے قضاۃ کی تعداد کا کافی ہونا آبادی کے لحاظ سے قضاۃ کی تعداد کافی تھی کیونکہ کوئی ضلع قاضی سے خالی نہیں تھی۔ اور چونکہ غیر مذہب والوں کو اجازت تھی کہ آپس کے مقدمات بطور خود فیصل کر لیا کریں۔ اس لیے اسلامی عدالتوں میں ان کے مقدمات کم آتے تھے۔ اور اس بناء پر ہر ٖضلع میں ایک قاضی کا ہونا بہر حال کافی تھا۔ ماہرین فن کی شہادت صیغہ قضاء اور خصوصاً اصول شہادت کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو نادر باتیں ایجاد کیں اور جن کا بیان ان کے اجتہادات کے ذکر میں آئے گا ان میں ایک ماہر فن کی شہادت تھی۔ یعنی جو امر کسی خاص فن سے تعلق رکھتا تھا اس فن کے ماہر کا اظہار لیا جاتا تھا۔ مثلاً حطیہ نے زبر قان بن بذر کی ہجو میں ایک شعر کہا تھا جس سے صاف طور پر ہجو نہیں ظاہر ہوتی تھی۔ زبرقان نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں مقدمہ رجوع کیا۔ یہ شعر و شاعری کا معاملہ تھا۔ اور شاعرانہ اصطلاحیں اور طرز ادا عام بول چال سے الگ ہوتی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حسان بن ثابت کو جو بڑے شاعر تھے بلا کر پوچھا اور ان کی رائے کی مطابق فیصلہ کیا۔ اسی طرح اشتباہ نسب کی صورت میں حلیہ شناسوں کے اظہار لیے۔ چنانچہ کنز العمال باب القذف میں اس قسم کے بہت سے مقدمات مذکور ہیں۔ فصل خصومات کے متعلق اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت سے آئین و اصول مقرر کئے لیکن یہ سب وہیں تک تھا جہاں تک انصاف کی ارزانی اور آسانی میں کوئی خلل نہیں پڑ سکتا تھا۔ ورنہ سب سے مقدم ان کو جس چیز کا لحاظ تھا وہ انصاف کا ارزاں اور آسان ہونا تھا۔ آج کل مہذب ملکوں نے انصاف اور داد رسی کو ایسی قیود میں جکڑ دیا کہ داد خواہوں کو دعویٰ سے باز آنا اس کی بہ نسبت زیادہ آسان ہے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اصول اور آئین اس قدر سہل اور آسان تھے کہ انصاف کے حاصل کرنے میں ذرا بھی دقت نہیں ہو سکتی تھی۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خاص اس بات کا ہمیشہ لحاظ رہتا تھا۔