الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
من المسک راحت فی صفارقھم تجری زمانہ حج میں تمام عالموں کی طلبی تمام عمال کو حکم تھا کہ ہر سال حج کے زمانے میں حاضر ہوں۔ حج کی تقریب سے پہلے تمام اطراف کے لوگ موجود ہوتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہو کر باعلان کہتے تھے کہ جس کسی کو کسی عامل سے کچھ شکایت ہو تو پیش کرے۔ (تاریخ طبری صفحہ 2680 میں ہے و کان من سنہ عمر و سیرتہ یا خذ عمالہ بموافاۃ الحج فی کل سنۃ للہ ولحجرھم یدنک عن الرعیۃ ولیکون لشکاۃ الرعیۃ وقنا و غایۃ ینھز نھا فیہ الیہ 12)۔ چنانچہ ذرا ذرا سے شکایتیں پیش ہوتی تھیں اور تحقیقات ہو کر ان کا تدارک کیا جاتا تھا۔ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت بڑا مجمع کر کے خطبہ دیا اور کہا کہ صاحبو، اعمال جو مقرر کر کے بھیجے جاتے ہیں اس لیے نہیں بھیجے جاتے کہ طمانچے ماریں یا تمہارا مال چھین لیں بلکہ میں ان کو اس لیے بھیجتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ سکھائیں۔ سو اگر کسی عامل نے اس کے خلاف کیا تو مجھ سے بیان کرو تا میں اس کا انتقام لوں۔ عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو مصر کے گورنر تھے اٹھ کر کہا کہ " اگر کوئی عامل ادب دینے کے لیے کسی کو مارے گا تب بھی آپ اس کو سزا دیں گے ؟" حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ضرور میں سزا دوں گا، کیونکہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔ خبردار! مسلمانوں کہ نہ مارا کرو ورنہ وہ ذلیل ہو جائیں گے۔ ان کے حقوق تلف نہ کرو۔ ورنہ کفران نعمت پر مجبور ہوں گے۔ ایک دفعہ حسب معمول تمام عمال حاضر تھے۔ ایک شخص اٹھا اور کہا کہ " آپ کے عامل نے مجھ کو بے قصور سو کوڑے مارے ہیں۔ " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مستغیث کو حکم دیا کہ وہیں مجمع عام میں عامل کو سو کوڑے لگائے۔ عمرو بن العاص نے کھڑے ہو کر کہا کہ یہ امر عمال پر گراں ہو گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا " لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ میں ملزم سے انتقام نہ لوں۔ " عمرو بن العاص نے منت کر کے مستغیث کو اس شرط پر راضی کیا کہ ایک ایک تازیانے کے عوض میں دو دو اشرفیاں لے کر اپنے حق سے باز آئے۔ (کتاب الخراج صفحہ 66) عاملوں کی تحقیقات وقتاً فوقتاً عمال کی جو شکایتیں پیش ہوتی تھیں۔ ان کی تحقیقات کے لیے ایک خاص عہدہ قائم کیا۔ جس پر محمد بن مسلمہ انصاری مامور تھے۔ یہ بزرگ اکابر صحابہ میں سے تھے۔ تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمرکاب رہے تھے۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک مہم پر تشریف لے گئے تو ان کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کرتے گئے۔ ان وجوہ سے