الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
محب طبری وغیرہ نے روایت کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے افسروں کو عیسائیوں کو ملازم رکھنے سے بھی منع کرتے تھے۔ افسوس ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب نے بھی ان روایتوں کو قبول کیا ہے۔ لیکن جس شخص نے محب طبری کی کتاب (ریاض النضرۃ) دیکھی ہے وہ پہلی نظر میں سمجھ سکتا ہے کہ ان روایتوں کا کیا پایہ ہے۔ ان بزرگوں کو بھی یہ خبر نہیں کہ عراق، مصر، شام کا دفتر مال گزاری جس قدر تھا سریانی و قبطی وغیرہ زبانوں میں تھا۔ اور اس وجہ سے دفتر مال گزاری کے تمام عمال مجوسی یا عیسائی تھے۔ ملازمت اور خدمت ایک طرف حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو فن فرائض کی ترتیب اور درستی کے لئے بھی ایک رومی عیسائی کو مدینہ منورہ میں طلب کیا تھا، چنانچہ علامہ بلاذری نے اس واقعہ کو کتاب الاشراف میں بتصریح لکھا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں۔ ابعث الینا برومی یقیم لنا حساب فرائضنا۔ "ہمارے پاس ایک رومی کو بھیج دو جو فرائض کے حساب کو درست کر دے۔ " آج غیر مذہب کا کوئی شخص مکہ معظمہ نہیں جا سکتا اور یہ ایک شرعی مسئلہ خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں غیر مذہب والے بے تکلف مکہ معظمہ جاتے تھے۔ اور جب تک چاہتے تھے مقیم رہتے تھے۔ چنانچہ قاضی ابو یوسف نے کتاب الخراج میں متعدد واقعات نقل کئے ہیں (کتاب الخراج صفحہ ۷۸ – ۷۰)۔ آجکل یورپ والے جو اسلام پر تنگ دلی اور وہم پرستی کا الزام لگاتے ہیں۔ اسلام کی صحیح تصویر خلفائے راشدین کے حالات کے آئینہ میں نظر آ سکتی ہے۔ علمی صحبتیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں اکثر علمی مسائل پر گفتگو ہوا کرتی۔ ایک دن صحابہ بدر (وہ صحابہ جو جنگ بدر میں رسول اللہ کے شریک تھے ) مجلس میں جمع تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجمع صحابہ کی طرف خطاب کر کے کہا، اذا جآء نصر اللہ والفتح سے کیا مراد ہے ؟ بعضوں نے کہا کہ خدا نے حکم دیا ہے کہ جب فتح حاصل ہو تو ہم خدا کا شکر بجا لائیں۔ بعض بالکل چپ رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف دیکھا، انہوں نے کہا " اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کی طرف اشارہ ہے ، یعنی اے محمد! جب فتح و نصرت آ چکی تو یہ تیرے دنیا سے اٹھنے کی علامت ہے