الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
" خدا کی تعریف کے بعد قضا ایک ضروری فرض ہے۔ لوگوں کو اپنے حضور میں اپنی مجلس میں اپنے انصاف میں برابر رکھو تا کہ کمزور انصاف سے مایوس نہ ہو۔ اور زور دار کو تمہاری رو رعایت کی امید نہ پیدا ہو۔ جو شخص دعویٰ کرے اس پر بار ثبوت ہے اور جو شخص منکر ہو اس پر قسم۔ صلح جائز ہے۔ بشرطیکہ اس سے حرام حلال اور حلال حرام نہ ہو۔ کل اگر تم نے کوئی فیصلہ کیا تو آج غور کے بعد اس سے رجوع کر سکتے ہو جس مسئلہ میں شبہہ ہو اور قرآن و حدیث میں اس کا ذکر نہ تو اس پر غور کرو اور پھر غور کرو اور اس کی مثالوں اور نظیروں پر خیال کرو پھر قیاس لگاؤ جو شخص ثبوت پیش کرنا چاہے اس کے لیے ایک میعاد مقرر کرو۔ اگر وہ ثبوت دے تو اس کا حق دلاؤ ورنہ مقدمہ خارج۔ مسلمان۔ ثقہ ہیں باستثنائے ان اشخاص کے جن کو حد کی سزا میں درے لگائے گئے ہوں یا جنہوں نے جھوٹی گواہی دے ہو یا ولا اور وراثت میں مشکوک ہوں۔ " اس فرمان میں قضا کے متعلق جو قانونی احکام مذکور ہیں حسب ذیل ہیں : 1 – قاضی کو عادلانہ حیثیت سے تمام لوگوں کے ساتھ یکساں برتاؤ کرنا چاہیے۔ 2 – بار ثبوت عموماً مدعی پر ہے۔ 3 – مدعا علیہ اگر کسی قسم کا ثبوت یا شہادت نہیں رکھتا تو اس سے قسم لی جائے گی۔ 4 – فریقین ہر حالت میں صلح کر سکتے ہیں۔ لیکن جو امر خلاف قانون ہے اس میں صلح نہیں ہو سکتی۔ 5 – قاضی خود اپنی مرضی سے مقدمہ کے فیصل کرنے کے بعد اس پر نظر ثانی کر سکتا ہے۔ 6 – مقدمہ کی پیشی کی ایک تاریخ معین ہونی چاہیے۔ 7 – تاریخ پر اگر مدعا علیہ نہ حاضر ہو تو مقدمہ یکطرفہ فیصل کیا جائے گا۔ 8 – ہر مسلمان قابل ادائے شہادت ہے۔ لیکن جو سزا یافتہ ہو یا جس کا جھوٹی گواہی دینا ثابت ہو وہ قابل شہادت نہیں۔ صیغہ قضاء کی عمدگی فصل خصومات میں پورا عدل و انصاف ان باتوں پر موقوف ہے۔ 1 – عمدہ اور مکمل قانون جس کے مطابق فیصلے عمل میں آئیں۔ 2 – قابل اور متدین حکام کا انتخاب 3 – وہ اصول اور آئین جن کی وجہ سے حکام رشوت اور دیگر ناجائز وسائل کے سبب سے فصل خصومات میں رو رعایت نہ کرنے پائیں۔ 4 - آبادی کے لحاظ سے قضاۃ کی تعداد کا کافی ہونا مقدمات کے انفصال میں حرج نہ ہونے پائے۔