الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ان لکم الذمۃ و علینا المنعۃ علی ان علیکم من الجزاء فی کل سنۃ علی قدر طاقتکم ومن استعنا بہ منکم فلہ جزاۂ فی معونۃ عوضا عن جزاۂ (ایضاً)۔ "یعنی ہم پر تمہاری حفاظت ہے اس شرط پر کہ ہر سال بقدر طاقت جزیہ ادا کرنا ہو گا۔ اور اگر تم سے اعانت لیں گے تو اس اعانت کے بدلہ جزیہ معاف ہو جائے گا۔ " غرض حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اقوال سے معاہدوں سے ، طرز عمل سے روز روشن کی طرح ظاہر ہو گیا ہے کہ جزیہ کا موضوع کیا تھا اور وہ کسی غرض سے مقرر کیا تھا۔ جزیہ کا صرف فوجی مصارف پر محدود تھا۔ یعنی اس رقم سے صرف اہل فوج کے لیے خوراک لباس اور دیگر ضروریات مہیا کی جاتی تھیں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جہاں جہاں جزیہ مقرر کیا اس کے ساتھ جنس اور غلبہ بھی شامل کیا۔ مصر میں فی کس جزیہ کی تعداد دراصل چار دینار تھی۔ لیکن دو نقد اور باقی کے عوض گیہوں، روغن، زیتون، شہد، سرکہ لیا جاتا تھا۔ اور یہی اہل فوج کی خوراک تھی۔ البتہ آگے چل کر جب رسد کا انتظام مستقل طور پر ہو گیا تو کل جزیہ کی مقدار نقد کر دی گئی اور جنس کی بجائے چار دینار لیے جانے لگے۔ (فتوح البلدان صفحہ 216)۔ غلامی کا رواج کم کرنا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اگرچہ غلامی کو معدوم نہیں کیا اور شاید اگر کرنا بھی چاہتے تو نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن اس میں شبہ نہیں کہ انہوں نے مختلف طریقوں سے اس کے رواج کو کم کر دیا۔ اور جس قدر قائم رکھا اس خوبی سے رکھا کہ غلامی غلامی نہیں بلکہ برادری اور ہمسری رہ گئی۔ عرب میں تو انہوں نے سرے سے اس کا استیصال کر دیا۔ اور اس میں ان کو اس قدر اہتمام تھا کہ عنان حکومت ہاتھ میں لینے کے ساتھ ہی پہلا کام جو کیا وہ یہ تھا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں قبائل مرتدہ میں جو لوگ لونڈی اور غلام بنائے گئے تھے سب آزاد کر دیئے۔ اس کے ساتھ ہی یہ اصول قائم کر دیا کہ اہل عرب کبھی کسی کے غلام نہیں ہو سکتے۔ ان کا یہ قول منقول ہے : لایشترق عربی"۔ عرب کا غلام نہ ہو سکنا