الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میمنہ قلب کے دائیں ہاتھ پر رہتا تھا۔ میسرہ بائیں ہاتھ پر۔ ساقہ سب کے پیچھے۔ طلیعہ گشت کی فوج جو دشمن کی فوجوں کی دیکھ بھال رکھتی تھی۔ روء جو ساقہ کے پیچھے رہتی تھی تا کہ دشمن عقب سے حملہ نہ کر سکے۔ رائد جو فوج کے چارہ اور پانی تلاش کرتی تھی۔ رکبان شتر سوار۔ فرسان گھوڑا سوار۔ راجل پیادہ۔ رماۃ تیر انداز۔ ہر سپاہی کو جو ضروری چیزیں ساتھ رکھنی پڑتی تھیں ہر سپاہی کو جنگ کی ضرورت کی تمام چیزیں اپنے ساتھ رکھنی پڑتی تھیں۔ فتوح البلدان میں لکھا ہے کہ کثیر بن شہاب (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک فوجی افسر تھے ) کی فوج کا ہر سپاہی اشیائے ذیل ضرور اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ سوئیاں، سوا، ڈورا، قینچی، سوتالی، توبڑا، چھلنی (فتوح البلدان صفحہ 18)۔ قلعہ شکن آلات قلعوں پر حملہ کرنے کے لیے منجیق کا استعمال اگرچہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں شروع ہو چکا تھا، چنانچہ سب سے پہلے 8 ہجری میں طائف کے محاصرے میں اس سے کام لیا گیا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں اس کو بہت ترقی ہوئی اور بڑے بڑے قلعے اس کے ذریعہ سے فتح ہوئے۔ مثلاً 16 ہجری میں بہرہ شہر کے محاصرے میں 20 منجیقیں استعمال کی گئیں۔ محاصرے کے لئے ایک اور آلہ تھا جس کو دبابہ کہتے تھے۔ یہ ایک لکڑی کا برج ہوتا تھا جس میں اوپر تلے کئی درجے ہوتے تھے اور نیچے پہیئے لگے ہوتے تھے۔ سنگ اندازوں اور نقب زنوں اور تیر اندازوں کو اس کے اندر بٹھا دیا جاتا تھا اور اس کو ریلتے ہوئے آگے بڑھاتے چلتے تھے۔ اس طرح قلعہ کی جڑ میں پہنچ جاتے تھے اور قلعہ کی دیواروں کو آلات کے ذریعے سے توڑ دیتے تھے۔ بہرہ شہر کے محاصرہ میں یہ آلہ بھی استعمال کیا گیا تھا۔