الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
علامہ ذہبی نے تذکرہ الحفاظ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حال میں لکھا ہے کہ سب سے پہلے جس نے احادیث کے باب میں احتیاط کی وہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ علامہ موصوف نے حاکم سے یہ بھی روایت کیا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 500/ حدیثیں قلمبند کی تھیں۔ لیکن پھر ان کو آگ میں جلا دیا اور کہا کہ ممکن ہے کہ میں نے ایک شخص کو ثقہ سمجھ کر اس کے ذریعہ سے روایت کی ہو اور وہ درحقیقت ثقہ نہ ہو، لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی احتیاط اور دیگر صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کی احتیاط میں فرق تھا اور صحابہ صرف راوی کے ثقہ اور عدم ثقہ ہونے کا لحاظ رکھتے تھے کہ راوی نے واقعہ کی پوری حقیقت سمجھی یا نہیں۔ حضرت عائشہ نے اسی بناء پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اکثر مواخذات کئے ورنہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ثقہ ہونے میں ان کو بھی کلام نہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روک ٹوک اور ضبط و احتیاط سے اگرچہ یہ نتیجہ ضروری ہوا کہ حدیثیں کم روایت کی گئیں۔ لیکن وہ ہر قسم کے احتمالات سے بے داغ تھیں۔ ان کے بعد اگرچہ احادیث کو بہت وسعت ہو گئی لیکن وہ اعتماد اور قوت کا وہ پایہ نہ رہا۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے نہایت سچ لکھا ہے کہ " ہر چند جمع صحابہ عدول اندو روایت ہمہ مقبول، عمل بموجب آنچہ بروایت صدوق ازایشاں ثابت شود، لازم، اما درمیان آنچہ از حدیث و فقہ درز من فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بود، آنچہ بعد وے حدث شدہ فرق مابین السموت والارض است۔ " (ازالۃ الخفاء صفحہ 141)۔ صحابہ میں جو لوگ کم روایت کرتے تھے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے احادیث کے متعلق احتیاط و تشدد کا جو خیال پیدا کیا وہ اگرچہ رواج عام نہ پا سکا۔ لیکن محققین صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں یہ خیال بے اثر نہ رہا۔ عبد اللہ بن مسعود کی نسبت عام شہرت ہے اور مسند داری وغیرہ میں جا بجا تصریح ہے کہ احادیث کی روایت کے وقت ان کے چہرے کا رنگ بدل جاتا تھا اور جب آنحضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ بیان کرتے تھے تو کہتے جاتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ لفظ فرمایا یا شاید اس کے مشابہ یا ان کے قریب یا اس کی مثل، ابو درداء اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بہت بڑے صحابی تھے ، ان کا بھی یہی حال تھا۔ امام شعبی کا بیان ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ سال بھر رہا۔ اس مدت میں ان سے صرف ایک حدیث سنی۔ ثابت بن قطبہ الانصاری کی رویت ہے کہ عبد اللہ بن رضی اللہ تعالیٰ عنہ مہینہ بھر میں دو تین حدیث روایت کرتے تھے۔ سائب بن یزید رحمۃ اللہ علی کا قول ہے کہ میں سعد وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مکہ سے مدینہ تک گیا اور آیا، لیکن انہوں نے اس مدت میں ایک حدیث بھی روایت نہیں کی۔ چنانچہ یہ تمام واقعات اور روایتیں صحیح دارمی میں بسند متصل منقول ہیں۔ (مسند داری مطبوعہ مطیع نظامی کانپور صفحہ 45 تا 4۔ سند اور روایت کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو مقدم اصول قائم کئے ان کو اجمالاً بیان کیا جاتا ہے :